عمران خان اور طاہر القادری کے احتجاجی مارچ کے اعلان کی وجہ سے پاکستان میں جہاں سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے وہیں دوسرے شہروں کی طرح اسلام آباد میں عوام کے معمولات زندگی بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے 14 اگست کو اسلام آباد میں احتجاجی مارچ اور دھرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں انتظامیہ کی طرف سے تعلیمی اداروں کی موسم گرما کی تعطیلات میں 18 اگست تک توسیع کر دی گئی ہے، جب کہ اسلام آباد میں مختلف اہم راستوں کو کنٹینرز رکھ کر بند کر دیا گیا ہے۔
جس کی وجہ سے وفاقی دارالحکومت کے شہریوں کو نقل و حرکت میں مشکلات کے علاوہ ان کے روز مرہ معمولات میں بھی خلل پڑا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں شہریوں کا احتجاجی مارچ اور اس ضمن میں حکومت کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
بعض شہریوں کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کو چاہیئے کہ وہ شہر کے لوگوں کو اس بات سے آگاہ کرے کہ کون کون سے راستے بند ہیں تاکہ انھیں اپنے کاروبار یا دفاتر کی طرف جاتے ہوئے کچھ آسانی ہو سکے۔
اسلام آباد کی چند اہم سڑکیں پہلے ہی میٹرو بس منصوبے کی تعمیر کے سلسلے میں ٹریفک کی وجہ سے بند ہیں۔
اسلام آباد میں تاجر برادری کے ایک نمائندے محمد اجمل بلوچ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو کوئی اچھا اقدام کرنا چاہیئے جس سے لوگوں کی مشکلات کم ہوں۔
’’حکومت کو کوئی اچھا اقدام کرنا چاہیئے اور شہر سے باہر کئی علاقے موجود ہیں جیسے زیر و پوائنٹ کی سڑک ہے ایف نائن پارک ہے، پریڈ گراونڈ ہے کوئی بھی ایسی کھلی جگہ دے دیں جہاں وہ احتجاج کریں ان کا حق ہے اور ہمیں ڈسٹرب نہ کریں، عام شہری اس وقت خاموش ہو کر تنگ ہو کر گھر بیٹھ گیا ہے‘‘۔
ایک نجی ادارے میں کام کرنے والے سرفراز احمد کا کہنا تھا کہ مسائل کا حل بات چیت میں ہے لانگ مارچ میں نہیں ہے۔
’’لانگ مارچ کوئی حل نہیں ہے یہ ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔ ملک جس طرف جا رہا ہے ان سے بات چیت کرنی چاہیئے ان کو بٹھا کر بات کرنی چاہیئے‘‘۔
حکومت نے اسلام آباد میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے یکم اگست سے پولیس اور سول انتظامیہ کی معاونت کے لیے فوج کو بھی تعینات کر رکھا ہے۔
عمران خان اور طاہر القادری کے اعلان کے مطابق لاکھوں کی تعداد میں ان کے لوگ اسلام آباد میں احتجاجی مارچ میں شریک ہوں گے جو کہ لاہور سے شروع ہو گا۔