دنیا بھر میں جاری معاشی عدم استحکام نے سرمایہ دارانہ نظام کے لئے بہت سی مشکلات پیدا کردی ہیں ، اور اس اقتصادی بحران سے باہر نکلنے اور معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے سرمایہ کار کسی متبادل نظام کی تلاش میں ہیں ۔اس سلسلے میں اسلامک فنانسنگ سسٹم کی بھی ایک متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔ امریکہ میں اسلامک بینکنگ کا آغاز تو ہو چکا ہے لیکن اسلامی سرمایہ کاری کے شعبے میں ابھی زیادہ پیش رفت نہیں ہوئی۔
امریکہ میں جاری معاشی عدم استحکام پرپایا جانے والا عوامی غصہ ، ان دنوں مختلف امریکی شہروں میں مظاہروں کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے ۔
معاشی مندی سے سب سے زیادہ متاثرہ شعبہ مکانوں کے لئے قرضوں کا ہے ۔ مکانوں کے قرضوں کی شرح سود اس وقت امریکی تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے۔ عام امریکی اپنے گھروں کے قرض ادا نہیں کر پارہے جس کے باعث قرضے دینے والی کمپنیاں اسلامک فنانس سسٹٕم کو ایک متبادل نظام کے طورپر دیکھ رہی ہیں۔
تھامس گینر امریکی ریاست ورجینیا میں اسلامی مالیاتی نظام کے تحت لوگوں کو گھروں کے لئے قرض دیتے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ اس نظام کے تحت کوئی بھی ہم سے بات کر سکتا ہے ہم ایسے سرمایہ کار تلاش کرتے ہیں جونفع نقصان میں شراکت کے اصول پر لوگوں کو گھروں کے لیے قرضے فراہم کر سکیں۔
لیکن ابھی امریکہ میں اسلامی مالیاتی نظام کے متعلق معلومات بہت کم ہیں۔ اور امریکہ میں شریعت کے قوانین پر جاری بحث نے بھی اس سلسلے میں مشکلات پیدا کی ہیں۔
امریکی سرمایہ کاروں کو اسلامی مالیاتی نظام کے بارے میں آگاہ کرنے کے لئے جارج واشنگٹن یونیورسٹی اور یو ایس قطر بزنس کونسل نے ایک مذاکرے کا اہتمام کیا ۔ پیٹرک تھارس یو ایس قطر بزنس کاونسل کے صدر ہیں جو امریکی کمپنیوں کو اسلامک فنانس سسٹم کی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ان کا کہناہے کہ چونکہ اسلامی طریقہ سرمایہ کاری ، شریعت کے قوانین کا حصہ ہے اس لیے امریکہ میں اس پر اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔ جبکہ اسلامک فنانس پر کئی کتابیں لکھنے والے ڈاکٹر یحیٰی رحمان کہتے ہیں کہ اسلامک فنانس سسٹم کی بنیاد ان قوانین پر بھی ہے جو یہودیت اور عیسائیت پر مبنی ہیں۔
ان کا کہناہے کہ ہم نے تحقیق کی ہے کہ کوئی بھی یہودی جو ریبا ( سود) لیتا ہے اس کی گواہی عدالت میں قبول نہیں کی جاتی۔ اور کیتھولک عیسائیوں میں ریباط ( سود ) جسے یوسری کہا جاتا ہے ، لینے والے کی مسیحی طریقے سے تدفین نہ کرنے کی روایات موجود رہی ہیں۔
رفیع الدین فنانس اور مارکیٹنگ کے شعبے میں 15 سال سے زیادہ کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہےکہ معاشی مندی کے موجودہ دور میں اسلامی مالیاتی نظام امریکہ میں کامیاب ہوسکتا ہے ۔
ان کا کہناہے کہ اسلامک فنانس کمیونٹی اور سوسائٹی دونوں کا ٕخیال رکھتا ہے یعنی نفع اور نقصان دونوں کو مل کر بانٹنا چاہیے۔
رفیع کا کہنا تھا کہ امریکہ میں آباد 60سے 70 لاکھ مسلمان آبادی ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے جس کی سالانہ قوت خرید تقریبا ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ جس کے باعث اس نظام کی کامیابی کا امکان موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلامک فنانس سسٹم صرف بینکنگ نہیں ہے بلکہ ایک پورا معاشی نظام ہے جس سے پاکستان بھی فائدہ اٹھاسکتا ہے۔