دولت اسلامیہ کے دہشت گردوں نے کہا ہے کہ اس نے برطانوی امدادی کارکن ڈیوڈ ہینز کو قتل کر دیا ہے۔
اس شدت پسند گروپ نے ڈھائی منٹ کی ایک وڈیو جاری کی جس میں مبینہ طور پر ہینز کو سر قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا۔
44 سالہ ہینز دو بچوں کے والد تھے اور انھیں گزشتہ سال شام میں ایک بین الاقوامی امدادی ادارے کے لیے کام کرنے کے لیے آنے کے صرف تین دن بعد اغوا کر لیا گیا تھا۔
اس وڈیو کا عنوان تھا "امریکہ کے اتحادیوں کے لیے ایک پیغام" اور کے جاری ہونے سے کچھ دیر قبل ہی ہینز کے اہل خانہ نے ان کے اغوا کاروں کو رابطہ کرنے کی درخواست کی تھی۔
وڈیو میں سر قلم کرنے والے نقاب پوش نے برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون پر الزام عائد کیا کہ انھوں نے دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی میں امریکہ کا ساتھ دیا۔
نقاب پوش نے متنبہ کیا کہ یہ فیصلہ برطانوی عوام کو "ایک اور خونی اور ناقابل فتح جنگ" میں دھکیل دے گا۔ اس گروپ نے ایک اور مغوی برطانوی کا سر قلم کرنے کی دھمکی بھی دی۔
وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اس وڈیو کے منظر عام پر آنے کے کچھ ہی دیر بعد ٹوئٹر پر ایک پیغام میں ڈیوڈ ہینز کے قتل کو " واضح برائی کا ایک فعل" قرار دیا۔ انھوں نے ہینز کے خاندان سے افسوس کا اظہار کیا جنہوں نے ان کے بقول غیر معمولی ہمت کا مظاہرہ کیا۔
کیمرون کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت " ان قاتلوں کو پکڑنے اور انھیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے جو کچھ بھی اس کے بس میں ہے وہ کرے گی چاہے اس میں کتنا ہی وقت لگ جائے۔"
واشنگٹن میں وائٹ ہاوس کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں صدر براک اوباما نے اس قتل کو بربریت قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ " اپنے قریبی اتحادی اور دوست کے غم میں اس کے ساتھ کھڑا ہے۔"
صدر نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ان کا ملک " برطانیہ اور دیگر اتحادیوں، خطے اور دنیا کے دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور اپنے ملکوں کے لوگوں، خطے اور دنیا کے لیے خطرہ بننے والے کو تباہ و برباد کرے گا"۔
دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں نے دو امریکی صحافیوں جم فولی اور اسٹیون سوٹلوف کو بھی حالیہ ہفتوں میں قتل کیا تھا۔ اس دہشت گرد گروپ کا کہنا تھا کہ ان امریکیوں کا قتل عراق میں ان کے گروپ کی ٹھکانوں پر امریکی فضائی حملوں کا ردعمل تھا۔
یہ گروپ لبنانی اور اپنے کرد مخالفین کو بھی قتل کر چکا ہے۔