افغان طالبان اور حکومت نواز میلشیاؤں کے ساتھ کئی روز تک جاری رہنے والی شدید لڑائی کے بعد، داعش کے شدت پسندوں نے منگل کی رات گئے افغانستان کے تورا بورا علاقے کے حصوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
پاکستان کے ساتھ ملنے والے یہ دور افتادہ، پہاڑی علاقہ دشوار ترین غاروں پر مشتمل ہے۔
یہ علاقہ اُس وقت شہرت کا حامل بنا جب امریکی قیادت والے ایک دستے نے القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن کے گرد دائرہ تنگ کر دیا تھا۔ اس کے چند ہی ماہ بعد 11 ستمبر، 2001ء کو امریکہ کے خلاف دہشت گرد حملے ہوئے، جس دوران وہ پاکستان کی جانب بچ نکلا تھا۔
تقریباً ایک ہفتہ قبل اس علاقے میں شدید لڑائی کا آغاز ہوا، جب داعش کے شدت پسندوں نے طالبان کے ٹھکانوں پر حملہ کیا۔
ابتدائی طور پر، طالبان نے حملہ پسپا کرکے داعش کو پیچھے دھکیل دیا۔ مقامی، افغان حکومت کی حامی ملیشیائیں، جو عام طور پر طالبان مخالف ہوتی ہیں، اُنھوں نے بھی داعش کا مقابلہ کیا۔ ابھی یہ واضح نہیں آیا وہ طالبان کے ساتھ مل کر لڑیں یا اپنے طور پر، یا یہ کہ دونوں فریق کا فی الواقع آپس میں عارضی صلح نامہ ہوگیا تھا، جب وہ اپنے مشترکہ دشمن سے نمٹ رہے تھے۔
تاہم، داعش کے شدت پسندوں نے نہ صرف دونوں کو شکست دے کر تورا بورا پر قبضہ کر لیا ہے، بلکہ’ پچیر او اگام‘ پر بھی دھاوا بول دیا ہے، جو صوبہٴ ننگرہار کے 22 اضلاع میں سے ایک ہے۔ علاقے میں موجود ’وائس آف امریکہ‘ کی پشتو سروس کے نمائندے، ذبیح اللہ غازی نے کہا ہے کہ یہ سنگین نوعیت کا حملہ تھا جس سے بعید نہیں کہ ضلع پر قبضہ ہو جائے۔
صوبہٴ ننگرہار کے گورنر کے ترجمان، عطاٴ اللہ خوگیانی نے بتایا ہے کہ ’پچیر او اگام‘ کی صورت حال کشیدہ ہے۔ تاہم، اُنھوں نے مزید تفصیل نہیں بتائیں۔
ادھر، افغان وزارتِ دفاع کے ترجمان، جنرل دعوت وزیری نے اِس بات کی تصدیق کی ہے کہ ’تورا بورا‘ پر قبضہ ہو گیا ہے۔