داعش کے ایک جنگجو کی بیوہ نے اس دہشت گرد گروپ کے رہنماؤں کو کھلے عام تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور مرنے والے جنگجوؤں کی بیواؤں اور اہل خانہ سے سلوک کے متعلق شکایت کی ہے۔ بیوہ کے انٹرنیٹ پر شائع ہونے والے احتجاجی خط کو داعش کی حامی سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر بڑے پیمانے پر شئیر کیا گیا ہے۔
شاذو نادر ہی داعش کے حامی اس گروپ کے رہنماؤں کے خلاف تنقید کرتے ہیں۔ عموماً ناقدین کو مرتد قرار دے دیا جاتا ہے اور ان سے سخت بدسلوکی کی جاتی ہے جس میں کوڑے، تشدد اور موت کی سزا شامل ہے۔
اپنے آپ کو المہاجرہ کہنے والی بظاہر مغربی خاتون نے کچھ بیواؤں کو ملنے والی معمولی اعانت کی شکایت کی۔
’’سوچیں کہ آپ نے کسی بہن کو دو دن پہلے زکوٰۃ دی ہو مگر آپ نے اس بہن کو نظر انداز کر دیا جو ایک ماہ سے زکوٰۃ کا انتظار کر رہی ہے۔ وہ ہر رات روتی ہے اور اس بات سے پریشان ہے کہ وہ کیسے اپنے بچوں کا پیٹ پالے گی کیونکہ اس کا شوہر شہید ہو چکا ہے۔ اس کی گالوں پر بہنے والے آنسو اور اس کا دکھ ایسی چیز ہے جس کے بارے میں آپ سے سوال کیا جائے گا۔‘‘
جہادیوں کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھنے والی واشنگٹن میں قائم ایک تنظیم مڈل ایسٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ’داعش کے رہنماؤں کے لیے یاد دہانی‘ کے عنوان سے یہ خط 27 جنوری کو JustPaste.it نامی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا۔
تنظیم سے وابستہ انٹ آرگون کے مطابق ’’اتنے بڑے پیمانے پر شیئر کیے جانے والی دستاویز میں اس طرح کی تنقید کبھی نہیں ملتی۔ ماضی میں بھی داعش کے ارکان نے داعش کے تحت زندگی کے کچھ پہلوؤں پر تنقید کی ہے مگر عموماً اس قسم کی پوسٹوں کو جلد حذف کر دیا جاتا ہے۔‘‘
داعش چھوڑنے والے کچھ مردوں نے بھی حال ہی میں داعش کی طرف سے بیواؤں سے سلوک کو اس کی منافقت کی ایک مثال قرار دیا ہے۔
انہوں نے امریکہ میں قائم متشدد انتہا پسندی پر تحقیق کرنے والے ایک ادارے سے وابستہ تحقیق کاروں کو بتایا کہ کس طرح بیواؤں، جن کے شوہر میدان جنگ میں مارے جاتے ہیں، کو فوراً دوسرے جنگجوؤں سے دوبارہ شادی پر مجبور کیا جاتا ہے۔
تحقیق کاروں این سپیکہارڈ اور احمد یائلا نے دسمبر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں لکھا کہ ’’داعش کے جنگجوؤں کی بیواؤں کے بارے میں ہمارے مخبروں نے ہمیں بتایا کہ داعش انہیں شریعت کے مطابق عدت پوری نہیں کرنے دیتی جس میں بیوہ کو چار ماہ دس دن کا عرصہ انتظار کرنا ہوتا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ اپنے پہلے شوہر سے حاملہ تو نہیں۔‘‘
’’اس کی بجائے داعش کی بیواؤں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ جلد دوبارہ شادی کر لیں جس سے داعش کے کارکنوں کی ضروریات پوری ہوتی ہیں جو عموماً اکیلے ہوتے ہیں اور جنسی تعلق کے خواہاں ہوتے ہیں۔ (شریعت میں) عدت کو عورت کا حق سمجھا جاتا ہے، جس میں وہ شوہر کی موت کا سوگ مناتی ہے۔‘‘
داعش عورتوں کو کرنسی کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ غیر ملکی اور شامی مردوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ انہیں گھر پیسہ اور بیوی دی جائے گی۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ ان کے لیے داعش میں شمولیت کا بڑا محرک ہے خصوصاً شمالی افریقہ کے غریب علاقوں سے آنے والے نوجوان مردوں کے لیے۔
اپنے خط میں المہاجرہ نے داعش کے رہنماؤں کو خبردار کیا کہ ’’آپ کی رعایا کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کے بارے میں قیامت کے دن آپ سے سوال کیا جائے گا۔ آپ کی بٹالین کے ہر شہید کی بیوہ کی دیکھ بھال آپ کی ذمہ داری ہے۔ خدا سے ڈرو ۔۔۔ وہ آپ کی ذمہ داری ہے اور اس کی ہر ضروریات پوری کرنا اب آپ کے کندھوں پر ہیں۔‘‘
المہاجرہ کی طرف سے تنقید ایسے وقت سامنے آئی ہے جب عراق میں اس شدت پسند گروپ میں دراڑیں پیدا ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
منگل کو داعش کی داخلی سلامتی کے اہلکاروں نے موصل میں محکمہ ٹیکس کے دفتر پر چھاپہ مار کر اس کے سربراہ صالح الجبوری اور اس کے تین محافظوں کے سر میں گولی مار دی تھی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ہلاکتیں داعش کے اندر پھوٹ کی نشاندہی کرتی ہیں۔
حال ہی میں مقامی طور پر یہ خبر بھی سامنے آئی کہ داعش نے نینوا صوبے میں میدان جنگ سے بھاگنے پر اپنے ہی 20 جنگجوؤں کے سر قلم کر دیے۔