اسرائیل نے کہا ہے کہ اس نے غزہ کی پٹی میں دس مختلف مقامات پر فضائی کارروائی کی ہے۔
اتوار کو علی الصبح کی گئی ان کارروائیوں کے بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ یہ ان مقامات پر کی گئیں جہاں سے ان کے بقول فلسطینیوں نے اسرائیلی علاقوں پر راکٹ داغے تھے۔
اسرائیل کی پولیس اور فلسطینیوں کے درمیان حالیہ دنوں میں یروشلم اور مختلف علاقوں میں چھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔
یہ کشیدگی گزشتہ ماہ تین اسرائیلی لڑکوں کی گمشدگی اور بعد ازاں قتل کی وجہ سے شروع ہوئی۔ اسرائیل نے ان ہلاکتوں کا الزام عسکریت پسند گروپ حماس پر عائد کیا لیکن یہ گروپ اس میں ملوث ہونے کی تردید کر چکا ہے۔
اسی دوران رواں ہفتے ایک فلسطینی لڑکے کے اغوا کے بعد لاش برآمد ہونے پر بھی کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا۔ محمد ابو خودیر کی تدفین جمعہ کو ہوئی اور اس موقع پر بھی اسرائیلی پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوئیں۔
فلسطین کے اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ اس لڑکے کی طبی رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ اسے زندہ جلایا گیا۔ انھوں نے شبہ ظاہر کیا یہ واقعہ تین اسرائیلی لڑکوں کی ہلاکت کا ردعمل ہو سکتا ہے۔
اسرائیل کی پولیس نے اتوار کو خودیر کی ہلاکت کی تحقیقات کے سلسلے میں متعدد افراد کو گرفتار بھی کیا۔
مقتول کے والد کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کو اس حد تک جلایا گیا کہ اس کی شناخت بھی ممکن نہیں تھی اور اس کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کا سہارا لیا گیا۔
ادھر خودیر کے ایک امریکی نژاد رشتے دار کو بھی اسرائیلی پولیس نے جمعرات کو گرفتار کیا اور اس کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
طارق ابو خودیر امریکی شہری ہیں اور وہ یروشلم اپنے عزیزوں سے ملنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ ان کے والدین نے بتایا کہ جب انھوں نے اپنے بیٹے کو اسپتال میں دیکھا تو اس کا چہرہ بری طرح سوجا ہوا تھا اور وہ پہچان میں نہیں آ رہا تھا۔
یروشلم کی ایک عدالت نے اتوار کو طارق کو نو روز کے لیے نظر بند کرنے کا حکم دیتے ہوئے تحقیقات کو معطل کیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان جین ساکی کا کہنا تھا کہ امریکہ کو مبینہ طور پر اسرائیلی پولیس کی طرف سے کیے جانے والے اس تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک طاقت کے بے جا استعمال کی مذمت کرتا ہے۔