مصر کے ساتھ جنوبی سرحد پر اسرائیل کی تشویش میں اضافہ

آہنی باڑ کی تنصیب پر کام تیزی سے جاری ہے

مشرقِ وسطیٰ میں آنے والی تبدیلیوں سے مصر کے ساتھ اس کی جنوبی سرحد کے بارے میں اسرائیل کی پریشانیوں میں اضافہ ہو گیا ہے ۔ وہ سنائے کے ریگستان میں مصر کے ساتھ اپنی سرحد پر ایک آہنی باڑ کھڑی کر رہا ہے۔

ایک سال پہلے جب عوامی انقلاب کے ریلے میں صدر حسنی مبارک کا تختہ الٹ گیا، تو اسرائیل کے لیے یہ باڑ بہت اہم ہو گئی ۔ مصری حکومت نے ملک میں بے چینی اور شہروں میں لا قانونیت سے نمٹنے کے لیے، اپنی بہت سی سیکورٹی فورسز سنائے کے جزیرہ نما سے نکال لی ہیں۔
نتیجہ یہ ہوا ہے کہ سنائے اسرائیل کی سیکورٹی کے لیے خطرہ بن گیا ہے ۔

جنوبی اسرائیل میں فوج کے اعلیٰ افسر، لیفٹیننٹ کرنل یواو تیلان کہتے ہیں’’اب اسرائیل کی کسی بھی دوسری سرحد کی طرح، یہ سرحد بھی دہشت گردی کے خطرات سے مبرا نہیں۔ اور ہم نے دوسری سرحدوں پر جو مختلف طریقے آزمائے ہیں ، اس سرحد پر بھی انہیں ویسے ہی یا حسبِ ضرورت ردو بدل کے بعد، استعمال کر رہے ہیں کیوں کہ اب یہاں بھی دہشت گردی کا خطرہ موجود ہے۔‘‘

اسرائیلی کمانڈر کہتے ہیں کہ اس 260 کلومیٹر طویل سرحد پر ، جو بحرِ احمر سے غزہ تک پھیلی ہوئی ہے ، انہیں ہر روز سیکیورٹی کے کسی نہ کسی خطرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ریگستان ایک عرصے سے اسمگلرز کی گذرگاہ رہا ہے۔ بیشتر یہ لوگ پسماندہ بدو ہیں جو سگریٹ اور غیر قانونی منشیات کے کاروبار پر گذارہ کرتے ہیں۔ 1990 کی دہائی کے دوران، اس علاقے سے انسانوں کی تجارت ہونے لگی۔ ان میں سے بیشتر عورتیں ہوتی تھیں جو جنسی تجارت میں بکاؤ مال کے طور پر استعمال ہوتی تھیں۔

حالیہ برسوں کے دوران، غیر قانونی تارکینِ وطن جن میں سے بیشتر کا تعلق افریقہ سے ہوتا ہے، سیاسی ظلم و ستم سے بچنے یا روزگار کی تلاش میں ، سرحد کے پار اسرائیل پہنچنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اور مصری فوجوں نے کہا ہے کہ لیبیا کے معمر قذافی کے زوال کے بعد، انہوں نے سنائے میں لیبیائی ہتھیار پکڑے ہیں۔

اسرائیل کے لیفٹیننٹ کرنل تیلان کہتے ہیں کہ اسمگلنگ کے راستے اب دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔’’یہ دہشت گرد تنظیمیں ہیں جو جزیرہ نمائے سنائے میں آزادی سے نقل و حرکت کرتی رہتی ہیں۔ ان کے بہت سے ٹولے ہیں جن کا تعلق مختلف تنظیموں سے ہے۔ لیکن ان سب کا مقصد ایک ہی ہے، اس سرحد کے اندر چوری چھپے رسائی حاصل کرنا اور سرحد کے قریب کے علاقوں میں سویلین اور فوجی اہداف پر حملے کرنا۔‘‘

گذشتہ اگست میں، مسلح افراد مصر سے سرحد پار داخل ہو گئے اور انھوں نے سرحد کے نزدیک ایک سڑک پر اسرائیلی سویلین باشندوں پر حملہ کیا ۔ آٹھ اسرائیلی ہلاک ہو گئے اور 30 زخمی ہوئے ۔ اسرائیلی فوجوں نے ان کا تعاقب کرتے ہوئے تین حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا، گولیوں کے تبادلے کے نتیجے میں تین مصر سپاہی بھی ہلاک ہو گئے ۔ بقیہ حملہ آور بھاگ کر مصر میں واپس داخل ہو گئے ۔

لیفٹیننٹ کرنل تیلان نے کہا کہ اگرچہ ہلاک ہونے والے مسلح افراد کی شناخت نہیں ہو سکی ہے، لیکن ان کے پاس سے جو گولہ بارود بر آمد ہوا، اس کا تعلق غزہ کے گروپوں سے جوڑا گیا ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ سنائے کی بہت سی دہشت گرد تنظیموں کے روابط غزہ میں انتہا پسندوں سے ہیں۔ غزہ پر فلسطینی تحریک حماس کا کنٹرول ہے ۔

ایک اعلیٰ اسرائیلی کمانڈر نے کہا کہ جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے، افریقہ دہشت گردی کا مرکز بن گیا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسرائیلی فوج نے مصر کے سرحدی علاقے میں مزید فوجی بھیجے ہیں، اور وہ نگرانی کے الکٹرانک نظام کے ذریعے، اپنی باڑ کو زیادہ مضبوط بنا رہا ہے۔
لیکن بعض پرانے طریقے آج بھی رائج ہیں۔ اسرائیل کی جانب، باڑ کے ساتھ ساتھ ایک دس میٹر چوڑی کچی سڑک بھی موجود ہے ۔ یہ سڑک نرم مٹی سے ڈھکی ہوئی ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ چوری چھپے گُھس آنے والوں کے قدموں کے نشان نظر آجائیں۔

لیفٹیننٹ کرنل صالح الخایب یہاں اسرائیلی فوج کے ٹریکنگ یونٹ کے کمانڈر ہیں۔ اس یونٹ کے بیشتر افراد کا تعلق بدو قبیلوں سے ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر صبح سرحد کے ساتھ ساتھ گشت ہوتا ہے، اور ایک ٹریکر بھی ساتھ ہوتا ہے ۔ یہ ٹریکر ایسی علامتیں یا چیزیں دیکھتا ہے جن سے یہ پتہ چل جاتا ہے کہ کیا کوئی چوری چھپے داخل ہوا تھا۔

اسمگلرز اپنے قدموں کے نشان چھپانے کے لیے مختلف قسم کے طریقے اختیار کرتے ہیں۔ ان میں فوم پر یا ربر کی پیٹیوں یا دھات کے اسٹینڈز پر چلنا ، اور درخت کی شاخیں، کپڑا ، یہاں تک کہ موٹر سے چلنے والی پتیاں اڑانے کی مشین بھی شامل ہے تا کہ چوری چھپے داخل ہونے کے نشانات مٹائے جا سکیں۔

لیکن لیفٹیننٹ کرنل الخایب کہتے ہیں کہ ان تمام ترکیبوں کے باوجود بھی، ایک مشاق ٹریکر، آمدو رفت کے نشانات کا سراغ لگا سکتا ہے۔

اسرائیلی کمانڈر کہتے ہیں کہ جن علاقوں میں باڑ مکمل ہو چکی ہے، وہاں چوری چھپے گُھس آنے والوں کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے ۔ لیکن باڑ ابھی صرف ایک تہائی مکمل ہوئی ہے۔ اسرائیلی افسر کہتے ہیں کہ چوری چھپے گھس آنے والے زیادہ عیار، تیز رفتار اور پُر تشدد ہوتے جا رہے ہیں، اور وہ ہائی ٹیک سازو سامان، جیسے رات کے اندھیرے میں کام کرنے والی دوربینیں استعمال کرنے لگے ہیں۔

نتیجہ یہ ہے کہ اسرائیلی ، مصری سیکورٹی فورسز کے قریبی تعاون سے کام کر رہے ہیں۔ اس خطرناک ٹریفک کو روکنے میں دونوں کا مفاد مشترک ہے ۔