اسرائیلی اخبار ’ہارٹز‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی بمباری سے ہونے والی ہلاکتوں میں شہری اموات کی شرح لگ بھگ 61 فی صد ہے۔ یہ شرح 20 ویں صدی کے تمام تنازعات، جن میں جنگ عظیم بھی شامل ہے، سے زیادہ ہے۔
’ہارٹز‘ میں ہفتے کو شائع ہونے والی رپورٹ اسرائیل کی اوپن یونیورسٹی میں سماجیات کے پروفیسر یاگیل لیوی نے تحریر کی ہے۔
یاگیل لیوی کے مطابق اسرائیل کی غزہ میں حالیہ عسکری کارروائی کے ابتدائی تین ہفتوں کے دوران، جنگ کی کل ہلاکتوں کے مقابلے میں شہری اموات کی شرح 61 فی صد تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ اس شرح کی مثال اس سے پہلے اسرائیل کے غزہ میں کسی بھی آپریشن میں نہیں ملتی۔
انہوں نے رپورٹ میں تحریر کیا ہے کہ ’’اس رپورٹ کا جامع فیصلہ یہ ہے کہ اس قدر بڑی تعداد میں شہریوں کی ہلاکتیں اسرائیل کی سلامتی میں نہ صرف یہ کہ مددگار نہیں ہیں، بلکہ مستقبل میں اس کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتی ہیں۔‘‘
انہوں نے خبردار کیا کہ غزہ کے رہائشی جو اس جنگ کے بعد نمودار ہوں گے، خدشہ ہے کہ وہ اپنے گھروں کی تباہی اور پیاروں کی ہلاکتوں کا بعد میں بدلہ لیں جسے روکنے کے لیے سیکیورٹی کے انتظامات ناکافی ہوں گے۔
SEE ALSO: امریکی حکومت کی اسرائیل کو ہنگامی اختیارات کے تحت ٹینک کے گولے فروخت کرنے کی منظوریبرطانوی اخبار ’گارڈین‘ نے لکھا ہے کہ یہ رپورٹ 10 روز قبل اسرائیلی اور فلسطینی اشاعتی اداروں، +972 میگزین اور عبرانی میں چھپنے والے رسالے ’لوکل کال‘ کی تحقیقاتی رپورٹ کی بھی تصدیق کرتی ہے جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ اسرائیلی فوج رہائشی علاقوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنا رہی ہے تاکہ بڑھتی شہری ہلاکتوں کے باعث غزہ کے رہائشی حماس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
اس سے قبل امریکہ کے اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے گزشتہ ماہ 25 نومبر کے شمارے میں شائع رپورٹ میں بتایا تھا کہ غزہ میں جاری اسرائیل کے حالیہ آپریشن میں مرنے والے شہریوں کی تعداد، حالیہ صدی میں امریکہ کے عراق، افغانستان اور شام میں کیے جانے والے عسکری آپریشنز سے بھی زیادہ ہے۔
امریکی مؤقف
سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد جہاں امریکہ نے اسرائیلی آپریشن کی، جس میں اب تک ساڑھے سترہ ہزار سے زائد فلسطینی شہری ہلاک ہو چکے ہیں،مسلسل حمایت کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اتنی بڑی تعداد میں شہریوں کی ہلاکت پر خدشات کا بھی اظہار کیا ہے۔
اسرائیل کا الزام ہے کہ حماس شہریوں کو بطور ڈھال استعمال کرتی ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ، اسرائیل سمیت بعض مغربی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔
امریکی وزیرِِ دفاع لائیڈ آسٹن نے گزشتہ ہفتے کے اختتام پر ایک بیان میں کہا تھا کہ اسرائیل کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ شہریوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کرے۔
انہوں نے کہا تھا کہ اگر آپ انہیں دشمن کے ہاتھوں میں دھکیل دیتے ہیں، تو آپ تدبیر سے حاصل جیت کو حکمتِ عملی کی ہار میں بدل دیتے ہیں۔
SEE ALSO: اسرائیل کا غزہ میں حماس کے سات ہزار جنگجو ہلاک کرنے کا دعویٰ، خان یونس میں جھڑپیںانہوں نے کہا کہ اس لیے میں نے اسرائیل کے لیڈروں پر متعدد بار واضح کیا کہ غزہ میں شہریوں کی حفاظت نہ صرف ایک اخلاقی ذمہ داری ہے بلکہ یہ جنگی نقطۂ نظر سے بھی اہم ہے۔
امریکی وزیرِِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے بھی جمعرات کے روز بیان میں کہا تھا کہ شہری ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور یہ کہ اسرائیل کو انہیں محدود کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔
بلنکن نے اسرائیل پر غزہ میں امداد میں اضافے پر بھی زور دیا تھا۔
حماس کے سات ہزار جنگجو ہلاک کرنے کا دعویٰ
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کی کارروائی میں پیش رفت جاری ہے۔
اسرائیل کے قومی سلامتی کے مشیر زاخی ہنگبی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے اب تک حماس کے سات ہزار جنگجوؤں کو ہلاک کیا ہے۔
تاہم انہوں نے اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائیں کہ اس تعداد کا تخمینہ کیسے لگایا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
یاد رہے کہ سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر زمین، فضا اور بحری راستوں سے حملہ کیا گیا تھا جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی تھی اس کے بعد اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فوجی آپریشن جاری ہے جس میں حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق اب تک ساڑھے 17 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس خبر کے لیے کچھ مواد خبر رساں ادارے ’ ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔