اسرائیلی فوج نے پیر کے روز کہا ہے کہ ہزاروں اسرائیلی فوجیوں کو غزہ کی پٹی سے باہر منتقل کیا جا رہا ہے۔ یہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیلی فوجیوں کا ایک ایسے وقت میں پہلا بڑا انخلاء ہے جب اسرائیلی فورسز محصور علاقے کے جنوبی نصف حصے میں مرکزی شہر پر اپنا دباؤ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
فوجوں کی نقل و حرکت سے اس بات کا اشارہ مل سکتا ہے کہ غزہ کے بعض علاقوں میں، خاص طور سے شمالی نصف حصے میں جنگ کی شدت میں کمی لائی جارہی ہے جہاں فوج کا کہنا ہے کہ وہ اس علاقے کا آپریشنل کنٹرول سنبھالنے کے قریب پہنچ چکی ہے۔
اسرائیل پر اس کے سب سے بڑے اتحادی امریکہ کی جانب سے جنگ کی شدت میں کمی لانے کا دباؤ ہے۔
SEE ALSO: اسرائیلی وزیر کا فلسطینیوں سے ایک بار پھر غزہ چھوڑنے کا مطالبہفوجیوں کی اس واپسی کا اعلان امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کے خطے کے دورے سے پہلے اور صدر بائیڈن حکومت کی جانب سے ایک ماہ میں دوسری بار کانگریس کو نظر انداز کرکے اسرائیل کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اسلحے کی فروخت کی منظوری دینے کے بعد سامنے آیا ہے۔
غزہ کے دوسرے حصوں، خاص طور جنوبی شہر خان یونس اور مرکزی علاقوں میں شدید لڑائی جاری ہے۔ اسرائیل نے اس وقت تک جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے جب تک وہ اس جنگ کے مقاصد حاصل نہ کر لے، جن میں حماس کی مکمل تباہی بھی شامل ہےجو مسلسل 16 سال سے غزہ کی پٹی پر اقتدار میں قائم رکھے ہوئے ہے۔
پیر کے روز ایک بیان میں اسرائیلی فوج نے کہا کہ آنے والے ہفتوں میں اپنے پانچ بریگیڈز یا کئی ہزار فوجیوں کو ٹریننگ اور آرام کے لیے غزہ سے باہر لے جا رہا ہے۔
اتوار کے روز ایک بریفنگ میں، پہلی بار فوجوں کی واپسی کا اعلان کیا گیا، تاہم یہ نہیں بتایا گیاکہ کتنے فوجیوں کو واپس بلایا جا رہا ہے۔ فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیل ہاگاری نے یہ بھی نہیں بتایا کہ آیا اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل جنگ کا ایک نیا مرحلہ شروع کر رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ جنگ کے جو مقاصد طے کیے گئے ہیں ان کے لیے ایک طویل جنگ کی ضرورت ہے۔ اور اسی کے مطابق ہم تیاری کر رہے ہیں۔
یہ جنگ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے سے شروع ہوئی جس میں اسرائیل کے اندر 1200 لوگ مارے گئے تھے اور 240 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
اسرائیل نے اس حملے کا ہوائی، زمینی اور سمندری کارروائیوں سے جواب دیا۔غزہ کی وزارت صحت کے مطابق ان حملوں میں پیر کے روز تک 21900 سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں جن میں سے دو تہائی عورتیں اور بچے تھے۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے ک8000ے زیادہ جنگجو بھی مار دیے گئے ہیں۔ تاہم اس نے اپنے دعویٰ کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔
اس جنگ میں غزہ کی23 لاکھ آبادی میں سے85 فیصد بے گھر ہو چکی ہے۔
SEE ALSO: اسرائیلی وزیر کا فلسطینیوں سے ایک بار پھر غزہ چھوڑنے کا مطالبہخان یونس میں، جہاں باور کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کے ہزاروں فوجی موجود ہیں، مکینوں نے شہر کے وسطی اور مغربی علاقوں میں ہوائی حملوں اور گولہ باری کی اطلاع دی ہے۔ فوج اور جنگجو گروپ اسلامک جہاد نے کہا ہے کہ علاقے میں جھڑپیں جاری ہیں۔
فلسطینی ریڈکراس نے خان یونس کی بیچ اسٹریٹ پر اتوار کو دیر گئے حملے کے بعد مختصر پیغام رسائی کی ویب سائٹ ایکس پر متعدد لاشوں اور زخمیوں کی اطلاع دی ہے۔
غزہ کی وزارت صحت نے پیر کے روز بتایا کہ ایک روز قبل 156 لوگ مارے گئے۔
ادھر اسرائیلی فوج نے بتایا ہے کہ وسطی شہر دیر البلاہ میں ایک حملے میں حماس کی ایلیٹ نخباہ فورسز کے کمانڈر عادل مسماع ہلاک ہو گئے ہیں۔
SEE ALSO: غزہ: اسرائیلی بمباری میں مزید 200 ہلاکتیں، خان یونس پر پیش قدمی سے قبل شدید حملےحماس نے مرکزی شہر تل ابیب سمیت اسرائیل پر بڑی تعداد میں راکٹ فائر کیے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے کہا کہ زمینی آپریشن شروع ہونے کے بعد سے ہلاک ہونے والے فوجیوں کی پیر تک 172 تھی ۔ ان میں سے18 فوجی ایک دوستانہ فائرنگ کے نتیجے میں مارے گئے جب کہ مزید 11 ہتھیاروں یا آلات کی خرابی سے یا حادثاتی طور پر ہلاک ہوئے۔
اس رپورٹ کے لیے مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔