ایک عرب نشریاتی ادارے کی جانب سے جاری کردہ دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیل کے سیکورٹی اداروں اور فلسطینی حکومت کے درمیان ماضی میں قریبی اشتراکِ عمل موجود رہا ہے۔ دستاویزات کے مطابق فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کے خلاف فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے کی گئی کاروائی کا منصوبہ برطانیہ نے بنایا تھا۔
عرب ٹیلی ویڑن نیٹ ورک "الجزیرہ" کی جانب سے جاری کردہ دستاویزات میں 2005 میں اس وقت کے اسرائیلی اور فلسطینی حکام کے درمیان ہونے والی اس مبینہ گفتگو کا بھی تذکرہ ہے جس میں فلسطینی صدر محمود عباس کی جماعت "فتح موومنٹ" کے عسکری ونگ "الاقصیٰ شہداء بریگیڈ" کے ایک مرکزی رہنما حسن المدہون کے قتل کی سازش پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
دستاویزات میں اس وقت کے فلسطینی وزیرِ داخلہ ناصر یوسف سے منسوب یہ بیان بھی درج ہے کہ "حسن المدہون کے معاملے پر ہدایات جاری کردی گئی ہیں"۔ مدہون بعد ازاں ایک اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔
منگل کی شب جاری کی جانے والی دستاویزات میں 2004ء کا ایک سیکورٹی منصوبہ بھی شامل ہے جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسے برطانوی انٹیلی جنس اداروں نے تیار کرکے فلسطینی حکومت کو پیش کیا تھا۔ برطانوی اخبار "گارجین" جسے الجزیرہ کی جانب سے ان دستاویزات تک رسائی فراہم کی گئی ہے، اس کے مطابق صدر محمود عباس کی حکومت نے مذکورہ منصوبے کی روشنی میں بعد ازاں اپنی سیکورٹی پالیسی ترتیب دی تھی۔
منصوبے میں مبینہ طور پر حماس، اسلامی جہاد اور دیگر فلسطینی مزاحمتی گروپوں کی دوسرے درجے کی قیادت کو عارضی طور پر قید میں رکھنے کی تجویز پیش کی گئی تھی تاکہ ان گروپوں کی قوت کو کم کیا جاسکے۔
"الجزیرہ" کی جانب سے کئی موضوعات کا احاطہ کرنے والے ان خفیہ سرکاری دستاویزات کے اجراء کا آغاز اتوار کے روز کیا گیا تھا۔ادارے کی جانب سے حاصل کردہ 17 سو سے زائد دستاویزات 1999ء سے 2010 تک کے عرصے میں پیش آنے والے واقعات پر مشتمل ہیں۔ "الجزیرہ" کے دعویٰ کے مطابق اس کی جانب سے حاصل کردہ یہ دستاویزات اسرائیل،فلسطین تنازعہ سے متعلق اب تک سامنے آنے والی خفیہ دستاویزات کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
نشریاتی ادارے کا ان دستاویزات کے بارے میں کہنا ہے کہ ان میں بیان کردہ حقائق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کس طرح فلسطینی حکومت نے حد سے زیادہ آگے بڑھ کر اسرائیل کو رعایت فراہم کی اور بدلے میں کچھ حاصل نہیں کیا۔
تاہم فلسطینی صدر محمود عباس نے "الجزیرہ" کی جانب سے جاری کردہ ان دستاویزات اور ان میں کیے گئے انکشافات کو ایک "ڈرامہ" قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔
منگل کے روز مغربی کنارے کے شہر رملّہ میں واقع فلسطینی اتھارٹی کے ہیڈ کوارٹر کے باہر اپنے حامیوں کی ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے فلسطینی صدر کا کہنا تھاکہ ان کی جانب سے فلسطینیوں کے حقوق پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
فلسطینی صدر کا ردِ عمل "الجزیرہ" کی جانب سے ان دستاویزات کی دوسری کھیپ کے اجراء کے فوری بعد سامنے آیا تھا جن میں صدر محمود عباس سے منسوب یہ بیان نقل کیا گیا تھا کہ "اسرائیل کے ساتھ مجوزہ حتمی امن معاہدے میں پچاس لاکھ فلسطینی مہاجرین کی آباد کاری کے مطالبے کی شمولیت غیر منطقی ہوگی"۔
فلسطینی صدر سے منسوب یہ بیان فلسطینی اتھارٹی کے اس دیرینہ موقف کے بالکل متضاد ہے جس کا اعادہ فلسطینی رہنما ہر فورم پر کرتے آئے ہیں کہ 1948 کی جنگ کے دوران بے دخل ہونے والے فلسطینی عرب باشندوں اور ان کی اولاد کو اپنے آبائی علاقوں جن میں سے بیشتر اب اسرائیل کا حصہ ہیں، کو واپسی کا حق حاصل ہے۔
اسرائیلی حکام ایسے کسی مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں کیونکہ ان کے بقول اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کی واپسی سے اسرائیل کی اکثریتی یہودی آبادی کے اقلیت میں تبدیل ہوجانے کا خدشہ پیدا ہوسکتا ہے۔
دریں اثناء اعلیٰ فلسطینی مذاکرات کار صائب اراکات نے الزام عائد کیا ہے کہ قطری چینل فلسطینی حکومت کو بدنام کرنے کیلئے چلائی جانے والی مہم کا حصہ بن گیا ہے۔
پیر کے روز بھی فلسطینی صدر محمود عباس کے ایک مشیر یاسر عابد ربو نے قطر کے امیر پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے مغربی کنارے کی فلسطینی قیادت کے خلاف سیاسی مہم چلانے کیلئے "الجزیرہ" کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔
واضح رہے کہ قطری حکومت کے فلسطینی علاقے غزہ کی حکمران جماعت حماس سے قریبی تعلقات قائم ہیں۔