اسرائیلی اور فلسطینی عہدے داروں کے ساتھ صدر براک اوباما اور وزیر خارجہ جان کیری کی ملاقاتوں سے امن مذاکرات کے امکانات کچھ روشن ہوئے ہیں۔
واشنگٹن —
اسرائیلی اور فلسطینی عہدے داروں کے ساتھ صدر براک اوباما اور وزیر خارجہ جان کیری کی ملاقاتوں سے امن مذاکرات کے امکانات کچھ روشن ہوئے ہیں۔
لیکن بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نہ تو فلسطینی اور نہ اسرائیل مستقبلِ قریب میں مکمل طور سے مذاکرات کے لیے تیار ہوں گے۔
گزشتہ ہفتے اس علاقے کے دورے میں، صدر اوباما نے اسرائیل اور فلسطینیوں پر زور دیا کہ وہ امن سمجھوتے کے بنیادی مسائل پر براہ راست بات چیت شروع کریں۔
بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے ناتن ساچس کہتے ہیں کہ عوامی سفارتکاری کے لحاظ سے صدر اوباما کا دورہ بڑا کامیاب رہا۔ لیکن وائس آف امریکہ کے انگریزی پروگرام انکاؤنٹر میں ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ اس وقت اسرائیل اور فلسطینیوں دونوں کو ایسے جرأت مندانہ اقدام کرنے میں تامل ہو گا جن کے نتیجے میں کوئی تبدیلی آ سکے۔
‘‘بہت سی مختلف وجوہات کی بنا پر، دو ریاستوں والے حل کے امکان کے بارے میں ، فلسطینیوں، اسرائیلیوں اور علاقے کے تمام فریقوں میں، مایوسی اور شک و شبے کے جذبات موجود ہیں۔’’
ساچس کہتےہیں کہ ان وجوہات میں داخلی سیاست اور علاقے میں شدید کشمکش اور ہیجان شامل ہیں۔ خاص طور سے شام اور مصر میں جن کی سرحدیں اسرائیل سے ملتی ہیں۔
قیتھ العمری فلسطین کے بارے میں امریکی ٹاسک فورس کے سربراہ ہیں۔ واشنگٹن میں قائم یہ گروپ دو ریاستوں پر مبنی حل کی حمایت کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسٹر اوباما نے دو ریاستوں کے حل کے بارے میں جس عزم کا اظہار کیا، اسے سن کو فلسطینی بہت خوش ہوئے، لیکن دوسرے امور پر صدر اوباما کے موقف کے بارے میں ، ان میں شک و شبہات موجود ہیں۔
‘‘فلسطینیوں کی اقوامِ متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کے بارے میں صدر اوباما کے رویے اور مقبوضہ علاقے میں نئی بستیوں کی تعمیر منجمد کرنے میں ان کی ناکامی کے بارے میں تشویش باقی ہے ۔’’
فلسطینی ایک عرصے سے اس زمین پر جس پر وہ اپنی مستقبل کی مملکت کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں، اسرائیل کیطرف سے بستیوں کی تعمیر کی مخالفت کرتے رہےہیں ۔
گزشتہ ہفتے جب مسٹر اوباما نے اسرائیلی طالب علموں سے خطاب کرتے ہوئے نئی بستیوں کی تعمیر کے مسئلے پر بات کی تو حاضرین نے زور دار تالیاں بجائیں۔
‘‘اسرائیلیوں کو یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ بستیوں کی مسلسل تعمیر سے امن کے حصول میں فائدے کے بجائے نقصان ہو رہا ہے۔ ایک آزاد فلسطینی ریاست ایسی ہونی چاہیئے جو زندہ رہ سکے اور پھل پھول سکے، جس کی اپنی سرحدیں ہوں جن کا تعین ہونا چاہیئے۔’’
العمری کہتے ہیں کہ اسرائیلی طالب علموں کی طرف سے حمایت کے باوجود، بستیوں کی تعمیر کا مسئلہ مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
‘‘فلسطینی اس وقت تک با معنی انداز سے مذاکرات دوبارہ شروع نہیں کریں گے جب تک کہ بستیوں کی تعمیر روکی نہ جائے، اور اسرائیل بستیوں کی تعمیر منجمد کرنے کو تیار نہیں ہو گا۔’’
العمری کہتے ہیں کہ حاصلِ کلام یہ ہے کہ مذاکرات کرنے والوں کو سیاسی فائدے کے لیے ایسے معاملے پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے جس میں مختصر عرصے میں کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوگا۔
‘‘ہمیں ایسے امور پر توجہ مرکوز کرنی چاہیئے جو کم متنازعہ ہیں، ایسے شعبے جن میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے مفاد مشترک ہیں، جیسے مغربی کنارے میں سیکورٹی کے امور میں ہم آہنگی، جیسے مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو زندگی کی سختیوں کو کچھ کم کرنا، اور ان شعبوں میں کچھ پیش رفت کرنا۔’’
وہ کہتے ہیں کہ اگر کم اختلافی امور پر بات چیت کی جائے، تو ممکن ہے کہ عوامی جذبات کا رُخ کسی اور طرف ہو جائے اور اس طرح ایک یا دو سال میں سنجیدہ مذاکرات شروع ہو سکیں۔
ناتن ساچس کہتے ہیں کہ اسرائیل کی نئی مخلوط حکومت میں جو پارٹیاں شامل ہیں، ان کی وجہ سے مذاکرات میں پیش رفت میں مزید رکاوٹ پڑ سکتی ہے۔
حکمراں اتحاد میں انتہائی دائیں بازو کا گروپ جیوش ہوم پارٹی شامل ہے جس کے سربراہ ایک نوجوان کاروباری شخصیت نفتالی بینٹ ہیں۔
نفتالی دو مملکتوں والے حل کی مخالفت میں کسی تکلف سے کام نہیں لیتے۔ وہ اس کے بڑے شدید مخالف ہیں اور اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ ان کا اتحاد اس قسم کے کسی سمجھوتے پر دستخط کر سکتا ہے یا اس سمت میں کوئی ڈرامائی اقدام کر سکتا ہے۔
ساچس کہتے ہیں کہ اس معاملے کا اچھا پہلو یہ ہے کہ یہ امریکہ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو کا دردِ سر ہے۔
وہ کہتےہیں کہ امریکہ کو اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے کی کوشش جاری رکھنی چاہیئے۔
العمری کہتے ہیں کہ یہ بحث جاری ہے۔ فلسطینی اس انتظار میں ہیں کہ امریکہ نے امن کے لیے نئے سرے سے کھلے عام اپنے عزم کا جو اظہار کیا ہے، اس کے نتیجے میں کیا کارروائی کی جائے گی۔
لیکن بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نہ تو فلسطینی اور نہ اسرائیل مستقبلِ قریب میں مکمل طور سے مذاکرات کے لیے تیار ہوں گے۔
گزشتہ ہفتے اس علاقے کے دورے میں، صدر اوباما نے اسرائیل اور فلسطینیوں پر زور دیا کہ وہ امن سمجھوتے کے بنیادی مسائل پر براہ راست بات چیت شروع کریں۔
بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے ناتن ساچس کہتے ہیں کہ عوامی سفارتکاری کے لحاظ سے صدر اوباما کا دورہ بڑا کامیاب رہا۔ لیکن وائس آف امریکہ کے انگریزی پروگرام انکاؤنٹر میں ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ اس وقت اسرائیل اور فلسطینیوں دونوں کو ایسے جرأت مندانہ اقدام کرنے میں تامل ہو گا جن کے نتیجے میں کوئی تبدیلی آ سکے۔
‘‘بہت سی مختلف وجوہات کی بنا پر، دو ریاستوں والے حل کے امکان کے بارے میں ، فلسطینیوں، اسرائیلیوں اور علاقے کے تمام فریقوں میں، مایوسی اور شک و شبے کے جذبات موجود ہیں۔’’
ساچس کہتےہیں کہ ان وجوہات میں داخلی سیاست اور علاقے میں شدید کشمکش اور ہیجان شامل ہیں۔ خاص طور سے شام اور مصر میں جن کی سرحدیں اسرائیل سے ملتی ہیں۔
قیتھ العمری فلسطین کے بارے میں امریکی ٹاسک فورس کے سربراہ ہیں۔ واشنگٹن میں قائم یہ گروپ دو ریاستوں پر مبنی حل کی حمایت کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسٹر اوباما نے دو ریاستوں کے حل کے بارے میں جس عزم کا اظہار کیا، اسے سن کو فلسطینی بہت خوش ہوئے، لیکن دوسرے امور پر صدر اوباما کے موقف کے بارے میں ، ان میں شک و شبہات موجود ہیں۔
‘‘فلسطینیوں کی اقوامِ متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کے بارے میں صدر اوباما کے رویے اور مقبوضہ علاقے میں نئی بستیوں کی تعمیر منجمد کرنے میں ان کی ناکامی کے بارے میں تشویش باقی ہے ۔’’
فلسطینی ایک عرصے سے اس زمین پر جس پر وہ اپنی مستقبل کی مملکت کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں، اسرائیل کیطرف سے بستیوں کی تعمیر کی مخالفت کرتے رہےہیں ۔
گزشتہ ہفتے جب مسٹر اوباما نے اسرائیلی طالب علموں سے خطاب کرتے ہوئے نئی بستیوں کی تعمیر کے مسئلے پر بات کی تو حاضرین نے زور دار تالیاں بجائیں۔
‘‘اسرائیلیوں کو یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ بستیوں کی مسلسل تعمیر سے امن کے حصول میں فائدے کے بجائے نقصان ہو رہا ہے۔ ایک آزاد فلسطینی ریاست ایسی ہونی چاہیئے جو زندہ رہ سکے اور پھل پھول سکے، جس کی اپنی سرحدیں ہوں جن کا تعین ہونا چاہیئے۔’’
العمری کہتے ہیں کہ اسرائیلی طالب علموں کی طرف سے حمایت کے باوجود، بستیوں کی تعمیر کا مسئلہ مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
‘‘فلسطینی اس وقت تک با معنی انداز سے مذاکرات دوبارہ شروع نہیں کریں گے جب تک کہ بستیوں کی تعمیر روکی نہ جائے، اور اسرائیل بستیوں کی تعمیر منجمد کرنے کو تیار نہیں ہو گا۔’’
العمری کہتے ہیں کہ حاصلِ کلام یہ ہے کہ مذاکرات کرنے والوں کو سیاسی فائدے کے لیے ایسے معاملے پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے جس میں مختصر عرصے میں کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوگا۔
‘‘ہمیں ایسے امور پر توجہ مرکوز کرنی چاہیئے جو کم متنازعہ ہیں، ایسے شعبے جن میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے مفاد مشترک ہیں، جیسے مغربی کنارے میں سیکورٹی کے امور میں ہم آہنگی، جیسے مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو زندگی کی سختیوں کو کچھ کم کرنا، اور ان شعبوں میں کچھ پیش رفت کرنا۔’’
وہ کہتے ہیں کہ اگر کم اختلافی امور پر بات چیت کی جائے، تو ممکن ہے کہ عوامی جذبات کا رُخ کسی اور طرف ہو جائے اور اس طرح ایک یا دو سال میں سنجیدہ مذاکرات شروع ہو سکیں۔
ناتن ساچس کہتے ہیں کہ اسرائیل کی نئی مخلوط حکومت میں جو پارٹیاں شامل ہیں، ان کی وجہ سے مذاکرات میں پیش رفت میں مزید رکاوٹ پڑ سکتی ہے۔
حکمراں اتحاد میں انتہائی دائیں بازو کا گروپ جیوش ہوم پارٹی شامل ہے جس کے سربراہ ایک نوجوان کاروباری شخصیت نفتالی بینٹ ہیں۔
نفتالی دو مملکتوں والے حل کی مخالفت میں کسی تکلف سے کام نہیں لیتے۔ وہ اس کے بڑے شدید مخالف ہیں اور اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ ان کا اتحاد اس قسم کے کسی سمجھوتے پر دستخط کر سکتا ہے یا اس سمت میں کوئی ڈرامائی اقدام کر سکتا ہے۔
ساچس کہتے ہیں کہ اس معاملے کا اچھا پہلو یہ ہے کہ یہ امریکہ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو کا دردِ سر ہے۔
وہ کہتےہیں کہ امریکہ کو اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے کی کوشش جاری رکھنی چاہیئے۔
العمری کہتے ہیں کہ یہ بحث جاری ہے۔ فلسطینی اس انتظار میں ہیں کہ امریکہ نے امن کے لیے نئے سرے سے کھلے عام اپنے عزم کا جو اظہار کیا ہے، اس کے نتیجے میں کیا کارروائی کی جائے گی۔