|
اسرائیل نے شمالی غزہ میں سب سے بڑے مہاجرین کیمپ جبالیہ کے مشرق میں اتوار کو ٹینک بھیج دیے ہیں۔ قبل ازیں رات بھر کی جانے والی بمباری اور زمینی کارروائی میں متعدد فلسطینی ہلاک اور کئی زخمی ہونے کی رپورٹس موصول ہوئی تھیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ جبالیہ میں کارروائی اس لیے کی گئی تاکہ یہاں حماس فعال نہ ہو سکے اور وہ دوبارہ یہاں سے اپنی عسکری کارروائی نہ کر سکے۔
غزہ میں قائم آٹھ مہاجرین کیمپوں میں سے جبالیہ سب سے بڑا کیمپ ہے۔ یہاں لگ بھگ ایک لاکھ مہاجرین آباد ہیں۔ یہ ان فلسطینی خاندانوں کے افراد ہیں جو 1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت ان دیہات اور علاقوں سے یہاں منتقل ہوئے تھے جو اب اسرائیل کا حصہ ہیں۔
اسرائیل کی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینئل ہگاری کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتوں میں یہ نشان دہی ہوئی تھی کہ حماس جبالیہ میں ایک بار پھر اپنی عسکری استعداد کے حصول کی کوشش کر رہی ہے۔ اسرائیلی فورسز نے اس لیے یہاں کارروائی کی ہے۔
ڈینئل ہگاری کا مزید کہنا تھا کہ غزہ سٹی کے ضلع زیتون میں فورسز کی کارروائی میں 30 عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔
دوسری جانب جبالیہ کے مکینوں کا الزام ہے کہ فورسز کی کارروائی میں شہری عمارات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
جبالیہ میں رہنے والے 45 سالہ سعید کا کہنا تھا کہ فضائی اور زمین سے کی جانے والے بمباری کا سلسلہ گزشتہ روز سے مسلسل جاری ہے۔
ان کے بقول اسرائیلی فورسز ہر طرف بمباری کر رہی ہے اور اسکولوں کے نزدیک ان لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو اپنے گھر تباہ ہونے کے سبب وہاں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جبالیہ میں ایک بار پھر سے جنگ شروع ہونے والی ہے۔ فوج ایک بار پھر در اندازی سے کئی خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
فوج نے الزیتون میں ایک بار پھر ٹینک بھیج دیے ہیں۔ یہ غزہ سٹی کے مضافات میں مشرقی علاقہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ الصبرہ میں ٹینک بھیج دیے گئے ہیں۔
اس علاقے کے مکینوں نے شدید بمباری کی اطلاعات دی ہیں جس میں متعدد گھر اور بلند عمارتیں بھی تباہ ہوئی ہیں۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے کئی ماہ قبل ان علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
حماس کے میڈیا ونگ اور شہریوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے دیر البلاح شہر پر حملہ نہیں کیا البتہ شہر کے گرد باڑ میں اسرائیل کے کچھ بلڈوزر اور ٹینک داخل ہوئے تو ان کا حماس کے جنگجوؤں سے مقابلہ ہوا ہے۔
غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام محکمۂ صحت کا کہنا تھا کہ ہفتے کی رات کو دیر البلاح میں اسرائیل کی فوج کی بمباری سے دو ڈاکٹر، جو باپ بیٹا تھے، مارے گئے ہیں۔
دوسری جانب حماس کے میڈیا ونگ اور ایک اور عسکری تنظیم اسلامی جہاد نے دعویٰ کیا ہے کہ غزہ کے متعدد علاقوں میں ان کے جنگجوؤں نے اسرائیلی فورسز پر اینٹی ٹینک راکٹوں اور مارٹر گولوں سے حملے کیے ہیں۔
SEE ALSO: اقوام متحدہ جنرل اسمبلی: فلسطین کو نئے حقوق دینے اوررکنیت کی کوشش کو بحال کرنے کی قرارداد کی منظوریرفح میں بھی اسرائیلی فورسز پر حملوں کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ رفح غزہ میں واحد مقام تھا جہاں سے پوری ساحلی پٹی سے بے گھر افراد نقل مکانی کرکے پہنچے ہیں اور لگ بھگ 10 لاکھ افراد اب اس علاقے میں خیموں میں موجود ہیں۔
خیال رہے کہ غزہ میں سات ماہ قبل جنگ کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب عسکری تنظیم حماس نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر زمین، فضا اور بحری راستے سے بیک وقت حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
حماس نے اس حملے میں اسرائیل سے لگ بھگ 250 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا جن میں سے 100 سے زائد یرغمالوں کو نومبر 2023 میں ایک ہفتے کی عارضی جنگ بندی کے دوران رہا کیا گیا تھا۔
حملے کے بعد اسرائیل نے سات اکتوبر 2023 کو غزہ کی مکمل ناکہ بندی کرکے حماس کے خاتمے اور تمام یرغمالوں کی رہائی تک جنگ کا اعلان کر دیا تھا۔
غزہ جنگ سے متعلق مزید جانیے
کون سے ملک اسرائیل کو کیا ہتھیار فراہم کرتے ہیں؟ غزہ کو "انسانی تباہی" کے انتہائی بڑے خطرے کا سامنا ہے: اقوام متحدہ کے سربراہ اسپین، آئرلینڈ سمیت یورپی یونین کے مزید ملکوں کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عندیہ اسرائیل کا مشرقی رفح پر حملہ، جنگ بندی مذاکرات معاہدے کے بغیر ختمغزہ میں حماس کے زیرِ انتظام محکمۂ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ سات ماہ کے دوران اسرائیلی فورسز کی کارروائی کے دوران 35 ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔
اتوار کو رفح سے سینکڑوں خاندانوں نے ایک بار پھر نقل مکانی ہے۔ یہ نقل مکانی ایسے وقت میں کی جا رہی ہے جب اسرائیلی فورسز یہاں کارروائی کا عندیہ دے رہی ہیں اور تیزی سے یہاں سے انخلا کے لیے فلسطینیوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
رفح مصر کی سرحد کے ساتھ واقع علاقہ ہے جہاں اسرائیلی فورسز مختلف مقامات پر بمباری کر رہی ہے۔
غزہ کے فلسطینی جنگ بندی اور امداد کی فراہمی نہ ہونے پر عالمی طاقتوں اور اقوامِ متحدہ کے کردار پر مسلسل سوال اٹھا رہے ہیں۔
(اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔)