اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے تیار کردہ لیزر میزائل شیلڈ سے حملہ آور راکٹوں، میزائلوں، ڈرونز اور طیارے گرانے کی ایک کارروائی پر صرف دو ڈالر لاگت آئے گی۔
وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے بدھ کے روز کہا کہ لیزر پر مبنی فضائی دفاعی نظام اگلے سال اس کی سیکیورٹی فورسز کے استعمال میں آ جائے گا۔
اسرائیل اس وقت فلسطینیوں کی جانب سے داغے جانے والے راکٹ اور میزائل گرانے کے لیے ایئر ڈیفنس سسٹم پر انحصار کرتا ہے جس سے حملہ آور راکٹوں اور میزائلوں کا راستہ میزائل کے ذریعے روک کر اسے تباہ کر دیا جاتا ہے۔ آئرن ڈوم کہلانے والا یہ ڈیفنس سسٹم حملہ آور طیاروں اور ڈرونز وغیرہ کو بھی گرانے کے لیے کار آمد ہے۔ لیکن اس نظام کو نصب کرنے پر لاکھوں ڈالر لاگت آتی ہے اور ہر کارروائی پر ہزاروں ڈالر صرف ہوتے ہیں۔
لیزر استعمال کرنے والے اسرائیل کے نئے لیزر ڈیفنس سسٹم کا نام آئرن بیم ہے۔ اس کا ایک تجرباتی ماڈل گزشتہ سال منظرعام پر آیا تھا اور اس پر تجربات کا سلسلہ جاری تھا۔ اس نظام میں لیزر کی انتہائی طاقت ور شعاع داغی جاتی ہے جس میں اتنی گرمی اور حرارت ہوتی ہے کہ وہ ہدف کو پگھلا کر ناکارہ بنا دیتی ہے۔
وزیر اعظم بینٹ نے کہا ہے کہ 2023 کے اوائل میں یہ نظام اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کے بیڑے میں شامل ہو جائے گا۔
انہوں نے لیزر میزائل ڈیفنس سسٹم تیار کرنے والی کمپنی رافیل ایڈوانسڈ ڈیفنس سسٹمز کا بھی دوہ کیا۔ یہ کمپنی 2016 سے اس منصوبے پر کام کر رہی ہے۔
SEE ALSO: اسرائیل کا دورہ مذہبی ہم آہنگی کے لیے تھا، کوئی 'ٹاسک' نہیں تھا: انیلا علیاس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ یہ کھیل کا پانسہ پلٹنے والا نظام ہے۔ اس سے ہمیں دوہرے فوائد حاصل ہوں گے۔ ایک یہ کہ ہم انتہائی کم لاگت سے دشمن کا حملہ ناکام بنائیں گے اور دوسرا یہ کہ حملے میں دشمن کی جانب سے استعمال کیے جانے والے قیمتی ہتھیار بھی تباہ کر کے اسے مالی ضرب پہنچائیں گے۔
اسرائیل کی زیادہ تر جھڑپیں فلسطینوں کے ساتھ ہوتی ہیں جن کے ساتھ دو ریاستی حل برسوں سے التوا میں پڑا ہوا ہے۔ اس کے خطے کے ہمسایہ ممالک لبنان اور شام کے ساتھ بھی کبھی کبھار عسکری تصادم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اسرائیلی علاقے میں فضائی حملے کرنے کے کئی واقعات کو ایرانی حمایت یافتہ جنگجوؤں کا تعاون حاصل ہوتا ہے۔
حالیہ برسوں میں فلسطینیوں اور لبنانی افواج کی جانب سے اسرائیل پر ہزاروں راکٹ اور مارٹر گولے برسائے جا چکے ہیں۔ ان حملوں میں بعض اوقات ڈرونز بھی استعمال کیے جاتے رہے ہیں، جن میں سے اکثر کو اسرائیل اپنے ایئر ڈیفنس سسٹم کے ذریعے فضا میں ہی تباہ کر دیتا ہے۔ تاہم کچھ بم اسرائیلی علاقے میں بھی گرتے رہے ہیں جس سے وہاں جانی اور املاک کا نقصان بھی ہوا ہے۔ اسرائیل ان حملوں کے جواب میں فضائی کارروائیاں کرتا رہا ہے۔
بینیٹ کا کہنا تھا کہ اب تک اسرائیل پر داغے جانے والے ہر راکٹ کو روکنے کے لیے ہمیں کثیر رقم صرف کرنی پڑتی تھی۔ لیکن آج کے بعد سے صورت حال پلٹ جائے گی۔ دشمن ہم پر فضائی حملے کے لیے ہزاروں ڈالر خرچ کرے گا جب کہ اسے روکنے کے لیے جو لیزر بیم استعمال کریں گے، اس کی تیاری پر محض دو ڈالر کی بجلی صرف ہو گی۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ بینیٹ نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ وہ توانائی پر کام کرنے والا دنیا کا اولین ہتھیاروں کا سسٹم لا رہے ہیں جو راکٹوں، مارٹر بموں اور بغیر پائلٹ کے طیاروں کو لیز رکی طاقتور شعاع سے مار گرائے گا، جس کی فی کارروائی لاگت ساڑھے تین ڈالر ہو گی۔ اپنی اس ٹوئٹ میں انہوں نے لیزر ڈیفنس سسٹم کی ویڈیو بھی شامل کی تھی۔
لیکن اب اسرائیلی وزیر اعظم نے لیزر ڈیفنس کی فی کارروائی کی لاگت کا تخمینہ دو ڈالر بتایا ہے۔ انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ لاگت ساڑھے تین ڈالر سے دو ڈالر کیسے ہوئی ۔
(خبر کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔)