شلومی ایلڈار ایک اسرائیلی صحافی ہیں اور وہ گزشتہ تیس سال سے زیادہ عرصے سے حماس اور غزہ کے حالات کے بارے میں لکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے نے اس گروپ کے بارے میں انکے نقطہ نظر کو یکسر تبدیل کر دیا ہے
وہ اپنی کتابوں اور ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلموں میں ، فلسطینیوں پر پس پردہ جو کچھ گزرتی ہے ،بتانے کی کوشش کرتے رہے مگر اب وہ سات اکتوبر کے حملے کے صدمے سے نبرد آزما ہیں۔ اب وہ حماس کو ایک ایسے گروپ کے طور پر نہیں دیکھتے جسکے ساتھ استدلال کیا جا سکتا ہے۔
SEE ALSO: اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالوں کی رہائی پر جلد معاہدہ ہونے کا امکان، بائیڈنوہ کہتے ہیں کہ سات اکتوبر کے حملے کے بعد انکے پاس ایک فلسطینی کا فون آیا جس نے انہیں غزہ میں اسرائیلی حملے میں ہلاک ہونے والے خاندان کے افراد کے بارے میں بتایا اور ایلڈار اعتراف کرتے ہیں کہ وہ صرف اتنا ہی کہہ سکے کہ دیکھو حماس نے بھی تو کیا کچھ کردیا۔
گزشتہ برسوں کے دوران ایلڈار نے نہ صرف غزہ میں بار بار ہونے والے تصادموں کے حوالے سے فلسطینیوں کی مشکلات کو اجاگر کیا بلکہ اسماعیل ہانیہ سمیت حماس کے لیڈروں کے انٹرویو بھی کئے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وہ کہتے ہیں کہ میں تیس سال سے زیادہ عرصے سے حماس کو کور کر رہا ہوں اور میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ عفریت بن جائیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے پہلے کبھی گروپ کے روئیے کا نازیوں اور ہولو کاسٹ سے موازنہ نہیں کیا تھا۔ لیکن سات اکتوبر کے حملے کے بعد جلی ہوئی لاشوں، ان کی مبینہ قطع و برید، آبرو ریزیوں اور اغوا کی وارداتوں نے انکی سوچ بدل دی۔
SEE ALSO: غزہ: انڈونیشیا اسپتال کا مکمل گھیراؤ ، 12 ہلاکتوں کی اطلاعاتخیال رہے کہ سات اکتوبر کو اسرائیل کے حملے کے نتیجے میں کوئی بارہ سو لوگ مارے گئے تھے جن میں زیادہ تر شہری تھے۔ اور بہت سے لوگوں کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ اسرائیل کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں غزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد غزہ کی وزارت صحت کے مطابق تیرہ ہزار سے زیادہ تک پہنچ گئی ہے۔
وی او اے