|
ایران کے اسرائیل پر دو سو کے قریب میزائل حملوں اور تل ابیب کی جانب سے تہران کو سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیوں کے بعد مبصرین کا کہنا ہے کہ اطراف سے جاری عسکری اقدامات نے مشرق وسطی میں جنگ کے خطرات کو اچانک کئی درجے بڑھا دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق صورتحال نے امریکی کردار کو بھی کئی حوالوں سے نمایاں کر دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ کشیدگی کے وسیع تر جنگ میں تبدیل ہونے پر دو بڑے عوامل اثر انداز ہوں گے۔ ایک یہ کہ ایران اپنی حمایت یافتہ عسکریت پسند تنظیموں کو پہنچنے والے نقصان کے وقت کیا آپشنز استعمال کرتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کہاں تک اس جنگ کو پھیلانے کے لیے تیار ہیں؟
ایران کے پاس کیا آپشنز ہیں؟
واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ماہر اور بین الاقوامی تعلقات کے نائب صدر پال سیلم کہتے ہیں کہ حسن نصراللہ کی ہلاکت نے خطے میں زلزلے کا کام کیا ہے۔ اس واقعہ کے بعد تہران اپنے آپ کو بہت غیر محفوظ سمجھ رہا ہے۔
ان پر خطر حالات میں ایران کے آپشنز پر سیلم کہتے ہیں کہ ایران کی ایک راہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ کشیدگی میں کمی لانے، اسرائیل کے حملے کی شدت میں کمی کرنے، اسے سست کرنے یا روکنے کے لیے راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرے۔
اس طرح ایران ایک مؤثر طریقے سے برسوں کا وقت خرید سکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بیروت میں مقیم سیلم کے بقول ایران کے آپشنز میں یہ بھی شامل ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی مجموعی حکمت عملی پر نظرثانی کرے اور حزب اللہ کی قیادت اور صلاحیتوں کو از سر نو تعمیر کرے۔
ان کے مطابق تہران یہ آپشن بھی اختیار کرسکتا ہے کہ وہ اپنی سلامتی کے لیے ایک زیادہ طاقتور ڈیٹرنٹ بنائے، جو ایک جوہری ہتھیار ہو گا۔
"لیکن اس کے لیے ہو سکتا ہے بہت دیر ہو چکی ہو۔ اگر ایران اب اس کے لیے بھاگ دوڑ کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو اسرائیل، امریکہ کی حمایت کے ساتھ، ایرانی سکیوریٹی اور جوہری تنصیبات،اور دیگر پر جہاں تک ممکن ہو سکے گا فضائی حملے کرے گا۔"
اس صورت حال میں، سیلم کے مطابق، تہران حکومت کو بڑا دھچکا لگ سکتا ہے۔
تاہم مشرق وسطی کے ماہر نے کہا کہ ان سب ممکنات کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ نیتن یاہو آگے کی کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں۔
'میزائل حملہ ٹیکٹیکل اقدام لگتا ہے'
ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکنہ اسرائیلی اقدامات کے نتیجے میں حماس اور حزب اللہ سمیت ایران کی حمایت یافتہ اور مشرق وسطی میں فعال تنظیموں کے رہنماؤں کے قتل کے بعد تہران سمجھتا ہے کہ نئے چیلنجز کی بھرمار کی اس صورت حال میں اسے کچھ نہ کچھ جوابی کارروائی کرنی چاہیے۔
واشنگٹن میں امریکی یونیورسٹی کے "ابن خلدون اسلامک اسٹڈیز " کے چیرمین پروفیسر اکبر احمد اس ضمن میں کہتے ہیں کہ ایران کا اسرائیل پر میزائل حملہ "ایک ٹیکٹیکل اقدام دکھائی دیتا ہے۔"
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایران عام طور پر سو چی سمجھی حکمت عملی پر عمل کرتا ہے۔
"لہذا یہ میزائل حملہ کوئی اسٹرٹیجک اقدام نہیں بلکہ ایک ٹیکٹیکل موو دکھائی دیتا ہے۔"
مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ماہر پال سیلم نے مضمون " اے ٹیکٹونک شفٹ ان دی مڈل ایسٹ" میں حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نصراللہ کے قتل نے ایران کو "بہت زیادہ غیر محفوظ بنادیا ہے۔"
اسرائیل مزید کیا اقدامات کر سکتا ہے؟
پروفیسر اکبر احمد کہتے ہیں کہ اسرائیل سمجھتا ہے کہ اسے اتنی امریکی حمایت حاصل ہے کہ وہ بیک وقت کئی محاذوں پر کارروائیاں کر سکتا ہے۔
غزہ میں جاری جنگ، لبنان پر زمینی حملے اور حوثیوں کے خلاف فضائی کارروائیوں کا حوالہ دیتے ہوئے اکبر احمد کہتے ہیں کہ انہیں مشرق وسطی کی صورت حال بہت خطرناک اور نازک لگتی ہے کیونکہ اس کے بہت سے ان دیکھے مضمرات سامنے آ سکتے ہیں ۔
"میں تو کہوں گا کہ پوری دنیا کو مشرق وسطی میں وسیع جنگ کے غیر ارادی نتائج کا سامنا کر پڑ سکتا ہے۔ ذرا سوچیں اگر ایران پر بڑے پیمانے پر حملہ ہوتا ہے اور روس ایران کی کھل کر مدد کرتا ہے اور چین پوشیدہ طور پر ایران کی مدد کرتا ہے تو مجھے تو یہ پہلی عالمی جنگ کے آثار کی طرح کی صورت حال لگتی ہے جب آسٹر و ہنگری سلطنت کے وارث آرچ ڈیوک فرانز فرڈینیڈ کے سرائیوو میں قتل کے بعد دنیا کو جنگ عظیم کے بھیانک نتائج چھیلنا پڑے ۔"
SEE ALSO: ایران نے اسرائیل پر حملے میں کس قسم کے میزائل استعمال کیے؟پال سیلم کو لگتا ہے کہ لبنان میں حزب اللہ کے خلاف اسرائیلی فضائی مہم اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ اس کے اہداف ختم نہ ہوجائیں، چاہے اس کی انسانی جانوں یا انفراسٹرکچر کی تباہی کی صورت میں کوئی بھی قیمت کیوں نہ ہو۔
وہ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اسرا ئیل کا جنوبی لبنان پر زمینی حملہ دریائے لیتانی تک دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے ہو۔
تاہم، وہ کہتے ہیں کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ حملہ ایک عارضی آپریشن ہوگا یا طویل مدتی فوجی موجودگی۔
طویل مدتی آپریشن کی صورت میں حزب اللہ اور ایران اس کا خیرمقدم کریں گے، کیونکہ وہ ایک بار پھر یہ دعویٰ کر سکیں گے کہ وہ لبنانی سرزمین کو اسرائیلی قبضے سے آزاد کرانے کے لیے لڑ رہے ہیں۔
انہوں نے تحریر کیا ہے کہ آیا نیتن یاہو ایک جنگ سے دوسری جنگ کی طرف دوڑتے رہیں گے،غزہ، پھر لبنان، پھر ایران، یا پھر وہ امریکی انتخابات کے نتائج کا انتظار کریں گے اور 2025 میں اسلامی جمہوریہ ایران کے حوالے سے اپنے آپشنز پر غور کریں گے، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
لیکن ان کے الفاظ میں واضح طور پر اسرائیلی اور ایرانی براہ راست حساب کتاب کے زمینی حالات پیدا ہو گئے ہیں۔
'امن قائم کرنے میں امریکی کردار مزید اہم ہوگیا ہے'
پال سیلم کہتے ہیں کہ اگرچہ گزشتہ سال میں امریکہ اور بین الاقوامی ثالثی کی کوششیں بڑی حد تک بے اثر ثابت ہوئی ہیں موجودہ حالات ایک اہم سفارتی موقع فراہم کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ ایران کے پاس موقع ہے کہ وہ دنیا پر یہ واضح کردے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے پروگرام اور "پراکسی ملیشیا" کے نیٹ ورک کو ترک کر تا ہے اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرے گا۔ یہ بہت مشکل موقف دکھائی دیتا ہے لیکن اگر ایرانی رہنما ایسا فیصلہ کریں تو ایرانی عوام اس کی حمایت کریں گے۔
ان کے مطابق اسرائیل کو بھی ایک ایسی ہی پیشکش کی جا سکتی ہے کہ ٕیا تو وہ اپنے فوجی عروج اور فتح کے لمحات میں مزید کئی دہائیوں کے قبضے سے پیدا ہونے والی مزاحمت، انتقام اور بار بار چلنے والی جنگ دیکھ لے یا پھر اس تاریخی لمحے سے فائدہ اٹھا کر عرب اور مسلم دنیا کی طرف سے بڑھائے گئے ہاتھ کو قبول کر کے اسرائیل فلسطین بحران کا پائیدار دو ریاستی حل کی طرف آئے تاکہ ایک پرامن مشرق وسطی کی جانب پیش رفت ہو سکے۔
SEE ALSO: ایران کو اپنی بڑی غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، نیتن یاہواکبر احمد سفارتی کوششوں کے تناظر میں نوٹ کرتے ہیں کہ اس وقت ایران کے صدر مسعود پزشکیان ایک اعتدال پسند شخصیت ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کا مشرق وسطی میں امن کے قیام میں کردار اس لیے زیادہ اہم ہے کیونکہ چین اور روس کے برعکس امریکہ جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی پر یقین رکھتا ہے۔
دوسرا بڑا عنصر یہ ہے کہ امریکہ کو اس وقت موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں رہنما کردار ادا کرنا ہے۔
SEE ALSO: امریکہ کا غزہ میں جنگ بندی کے لیے سلامتی کونسل میں ووٹنگ پر زوراکبر احمد کے مطابق امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں جاری طوفان اور سیلابوں میں تباہی اور انسانی جانوں کا زیاں، ملک کے لیے پہلے سے کہیں بڑے آب و ہوا میں تبدیلی کے مسئلے کی علامات ہیں۔
"لیکن میں حیران ہوں کہ انسانی جانوں کے احترام میں آوازیں کم کیوں ہیں۔ میرے نزدیک دنیا کو اس وقت دو بڑے سب سے بڑے مسائل کا سامنا ہے جن میں موسمیاتی تبدیلی اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس شامل ہیں۔ اگر امریکہ مشرق وسطی میں امن قائم نہیں کر پاتا اور جنگ پھیل جاتی ہے تو امریکہ کی نظریں موسمیاتی مسائل سے ہٹ جائیں گی اور اس کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں۔"