|
اسرائیلی حکام نے منگل کے روز غیر ملکی میڈیا کے بارے میں ایک نئے قانون کا حوالہ دیتے ہوئے ایسوسی ایٹڈ پریس سے اس کا کیمرہ اور دیگر آلات چھین لیے اور غزہ نیوز آؤٹ لیٹ کی لائیو فیڈ بند کر دی۔
اسرائیلی حکام نے منگل کو جنوبی اسرائیل میں اے پی کی ملکیت والا ایک کیمرہ اور نشریاتی سامان ضبط کر لیا۔ حکام نے ایسوسی ایٹڈ پریس پر الزام لگایا کہ وہ الجزیرہ پر عائد کی گئی اسرائیل کی نئی پابندی کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
اےپی کے آؤٹ لیٹ نے کہا کہ الجزیرہ ان ہزاروں کلائنٹس میں شامل ہے جو اے پی سے لائیو ویڈیو فیڈ وصول کرتے ہیں۔
آزادی صحافت کے گروپوں اور امریکی حکومت نے اس واقعے پر تشویش کا اظہار کیا۔ اے پی نے اسرائیلی حکومت سے اس کارروائی کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کرائن جین پیئر نے صدر بائیڈن کے طیارے پر موجود صحافیوں کو بتایا کہ "ظاہر ہے کہ یہ تشویشناک بات ہے، اور ہم اس پر غور کرنا چاہتے ہیں۔
اے پی کارپوریٹ کمیونیکیشنز کی نائب صدر لارین ایسٹن نے ایک بیان میں کہا، "ایسوسی ایٹڈ پریس غزہ کی صورتحال دکھانے والی ہماری دیرینہ لائیو فیڈ کو بند کرنے، اور اے پی کے آلات ضبط کرنے کے اقدامات کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے ۔"
ایسٹن نے مزید کہا کہ "بند کرنا فیڈ کے مواد کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ وہ اسرائیلی حکومت کے ملک کے نئے غیر ملکی براڈکاسٹر قانون کے غلط استعمال پر مبنی تھا ۔ہم اسرائیلی حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ ہمارا سامان واپس کریں اور ہمیں فوری طور پر اپنی لائیو فیڈ بحال کرنے کے قابل بنائیں تاکہ ہم دنیا بھر کے ہزاروں میڈیا آؤٹ لیٹس کو اس اہم بصری صحافت کی فراہمی جاری رکھ سکیں۔"
اے پی کے مطابق، منگل کی سہ پہر کو، کمیونی کیشنز منسٹری کے اہلکار جنوبی اسرائیلی قصبے سڈروٹ میں اے پی کے مقام پر پہنچے اور سامان کوقبضے میں لے لیا۔ حکام نے اے پی کو کاغذ کا ایک ٹکڑا دیا جس پر وزیر مواصلات شلومو کارہی کے دستخط تھے اور الزام لگایا کہ اے پی اسرائیل کے نئے غیر ملکی نشریاتی قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
یہ قانون اسرائیلی حکومت کو ایسےغیر ملکی خبر رساں اداروں کو عارضی طور پر بند کرنے کی اجازت دیتا ہے جنہیں ریاستی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جائے۔ اسرائیل نے مئی کےاوائل میں اس قانون کو الجزیرہ کو بند کرنے کے لئے استعمال کیا تھا۔اس اقدام کی پریس کی آزادی کے گروپس نے بڑے پیمانے پر مذمت کی تھی۔
آلات کے چھینے جانے سے ذرا ہی پہلے، اے پی شمالی غزہ کا ایک عمومی منظر براڈ کاسٹ کر رہا تھا۔
یہ کارروائی گزشتہ ہفتے کے اس زبانی حکم کے بعد ہوئی جس میں اے پی کو غزہ کی لائیو ٹرانسمیشن روکنے کیلیے کہا گیا تھا، جس کی اس نے تعمیل نہیں کی۔
SEE ALSO: اسرائیل میں الجزیرہ پر پابندی عائد، دفاتر پر چھاپےاے پی کے مطابق، وزارت نے ایک بیان میں کہا، "حکومتی فیصلے اور وزیر مواصلات کی ہدایت کے مطابق، وزارت مواصلات کو ریاستی سلامتی کو نقصان پہنچانے والی نشریات کو محدود کرنے کے لیے جن اقدامات کے نفاذ کی بھی ضرورت پڑی وہ انہیں کرےگی۔"
یروشلم میں فارن پریس ایسوسی ایشن نے ایک بیان میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ "اسرائیل کو سیکیورٹی کی مبہم وجوہات کی بنیاد پر کسی بھی خبر کی میڈیا کوریج کو فی الواقع روکنے کی اجازت دے سکتا ہے۔"
SEE ALSO: ورلڈ پریس فریڈم ایوارڈ غزہ جنگ کی کوریج کرنے والے فلسطینی صحافیوں کے نامنیشنل پریس کلب کی صدر ایملی ولکنز نے ایک بیان میں کہا، ’’ان اقدامات کا جو صحافتی تنظیموں کے خلاف اسرائیل کی جارحانہ کارروئیوں کا ایک حصہ ہیں، کوئی اسٹریٹجک جواز نہیں تھا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ " اسرائیل غزہ میں فوجی کارروائی کی خبروں کی کوریج کو روکنے کے لیے جس حد تک جانے کو تیار ہے، اسے میڈیا کو، جو ابھی تک تنازع کی کوریج کر رہا ہے اور عام پبلک کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔"
اس دوران رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے " اشتعال انگیز سنسرشپ" قرار دیا۔
یہ اقدام اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کے دوران سامنے آیا ہے، جو 7 اکتوبر کو اس وقت شروع ہوئی جب حماس نے جنوبی اسرائیل پر حملہ کیا، جس میں 1200 افراد ہلاک اور 250 کو یرغمال بنایا گیا۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اس کے بعد سے اب تک 35,000 سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں ۔
SEE ALSO: حماس اسرائیل جنگ میں بھاری تعداد میں صحافی مارے گئے: سی پی جےیہ جنگ صحافیوں کے لیے خاص طور پر مہلک ثابت ہوئی ہے۔ صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی کے مطابق، جنگ شروع ہونے کے بعد سے 21مئی تک، 105 صحافی ہلاک ہو چکےہیں، جن میں 100 فلسطینی، دو اسرائیلی اور تین لبنانی صحافی شامل ہیں۔
اس رپورٹ میں کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس اور رائٹرز سے لی گئی ہیں ۔