|
اسرائیل اور لبنانی عسکری گروپ حزب اللہ کے درمیان اختتام ہفتہ شدید جھڑپ ہوئی جس سے بڑے پیمانے کی جنگ کے خدشات پیدا ہو گئے تھے، لیکن اس کے بعد سے خاموشی ہے۔
اسرائیل اور حزب اللہ کا تنازع عشروں پرانا ہے۔ غزہ جنگ میں حزب اللہ کی مداخلت کے باعث علاقائی کشیدگی میں مزید اضافہ ہو چکا ہے اور کسی بھی لمحے ایک بڑی جنگ کا خطرہ منڈلاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ نے گزشتہ ماہ اسرائیل کے ایک فضائی حملے میں اپنے ایک اعلیٰ کمانڈر فواد شکر کی ہلاکت پر جوابی کارروائی کے امکان کو مسترد نہیں کیا ہے اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔
غزہ جنگ چھڑنے کے بعد سے حزب اللہ اسرائیل پر اور اسرائیل، لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں پر حملے کر رہا ہے۔ اتوار کو دونوں کے درمیان ایک بہت بڑی جھڑپ بھی ہو چکی ہے۔
SEE ALSO: حماس کے سربراہ کی ہلاکت کا جواب سخت اور مناسب ترین ہو گا: ایراناتوار کی صبح کیا ہوا تھا؟
اسرائیل نے کہا ہے کہ اس کے تقریباً ایک سو جنگی طیاروں نے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے ان ٹھکانوں کو ہدف بنایا جہاں ہزاروں راکٹ موجود ہیں۔ حملے کا مقصد حزب اللہ کے امکانی حملے کو روکنا تھا۔
حزب اللہ کا کہنا ہے کہ اس نے شمالی اسرائیل اور زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں میں اسرائیل کے فوجی تنصیبات پر سینکڑوں ڈرونز اور راکٹ داغے۔
اسرائیلی حملوں میں لبنان میں تین عسکریت پسند مارے گئے جب کہ ایک اسرائیلی فوجی ہلاک ہوا۔ اتوار کی صبح کی اس شدید جھڑپ کے بعد سے مکمل خاموشی ہے۔
حزب اللہ نے اپنے حملے کے بارے میں کہا تھا کہ وہ اسرائیلی فضائی حملے میں اسکے ایک اعلیٰ کمانڈر فواد شکر کی ہلاکت کا پہلا ردعمل ہے۔ حسن نصراللہ نے کہا ہے کہ اگر نتائج تسلی بخش نہ ہوئے تو حزب اللہ بعد میں بھی جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
SEE ALSO: سینئیر کمانڈر کی ہلاکت کےجواب میں حزب اللہ کے اسرائیل پر راکٹ حملے،کیا تصادم پھیل سکتا ہے؟اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ حزب اللہ کے حملے سے بہت کم نقصان ہوا ہے۔
اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ کا کتنا امکان ہے؟
اتوار کی شدید جھڑپ میں بھاری پیمانے پر ہتھیاروں کا استعمال ہوا، لیکن انسانی ہلاکتوں کی تعداد کم رہی جس سے دونوں فریقوں کو اپنی اپنی فتح کے دعوے کرنے کا موقع ملا ہے۔ جس کے بعد دونوں کچھ پیچھے ہٹ سکتے ہیں لیکن تناؤ اب بھی بہت زیادہ ہے۔
حماس اور حزب اللہ اتحادی ہیں اور دونوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔ حزب اللہ گروپ اپنے اتحادی کی حمایت میں غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے مسلسل اسرائیل پر حملے کر رہا ہے۔
8 اکتوبر کے بعد سے اسرائیلی حملوں میں لبنان میں 500 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عسکریت پسندوں کی ہے جب کہ 100 عام شہری بھی مارے گئے ہیں۔ جب کہ شمالی اسرائیل پر حزب اللہ کے حملوں میں 23 فوجی اور 26 عام شہری مارے جا چکے ہیں۔ لیکن سرحدی قصبوں سے ہزاروں اسرائیلیوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف جانا پڑا ہے۔
SEE ALSO: حزب اللہ کی خفیہ سرنگوں کا جال ہے کیا؟اسرائیل اپنے شہریوں کو واپس اپنے گھروں میں بسانا چاہتا ہے۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ سرحد پر توپیں خاموش رہیں اور لانچروں سے راکٹ پرواز نہ کریں۔ وہ چاہتا ہے کہ جنگ کا معاملہ امریکہ اور ثالثوں کی مدد سے سفارتی طور پر حل ہو جائے۔ لیکن اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ضرورت پڑنے پر وہ طاقت کے استعمال سے دریغ نہیں کرے گا۔ حزب اللہ کا بھی یہی کہنا ہے وہ بڑی جنگ نہیں چاہتی لیکن اس کے لیے تیار ہے۔
اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ کیسی ہو گی؟
اسرائیل اور حزب اللہ 2006 میں ایک ماہ طویل جنگ لڑ چکے ہیں جس میں جنوبی بیروت اور جنوبی لبنان کا زیادہ تر علاقہ کھنڈرات میں بدل گیا تھا اور سرحد کے دونوں جانب ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے تھے۔ خدشات یہ ہیں کہ کوئی بھی نئی جنگ بدترین تباہی لے کر آئے گی
ایک اندازے کے مطابق حزب اللہ کے پاس ڈیڑھ لاکھ راکٹ موجود ہیں اور وہ اسرائیل کے تمام حصوں کو ہدف بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے پاس جدید ترین ڈرونز کا ایک بڑا بیڑا بھی ہے اور وہ اہداف کو درست نشانہ لگانے والے میزائلوں کے تجربات بھی کر رہا ہے۔
SEE ALSO: حزب اللہ کا اسرائیلی زیر قبضہ گولان ہائٹس آبادیوں پر 50 راکٹوں سے حملہمکمل جنگ کی صورت میں لاکھوں اسرائیلیوں کو بے گھر ہونا پڑ سکتا ہے۔ اسرائیلی معیشت مفلوج ہو سکتی ہے۔ اور فوج کو بیک وقت دو محاذوں پر لڑنے کے باعث مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اسرائیلی حملوں سے لبنان کے شہری ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بحران میں مبتلا اس کی معیشت زمین بوس ہو سکتی ہے۔ لبنان کے وہ علاقے جہاں حزب اللہ کے گڑھ ہیں، ملیا میٹ ہو سکتے ہیں۔
لیکن یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ حزب اللہ کو ختم کرنے والی جنگ برسوں تک جاری رہ سکتی ہے۔ حزب اللہ کے پاس حماس کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ طاقت اور بہتر جنگی تربیت اور ہتھیار ہیں۔ اگر 11 ماہ کی شدید اسرائیلی بمباری کے باوجود حماس مقابلہ جاری رکھے ہوئے ہے تو پھر حزب اللہ بہت آگے تک جا سکتا ہے۔
SEE ALSO: امریکہ کا اسرائیل کے تحفظ کے لیے خطے میں لڑاکا طیارے اور بحری بیڑے بھیجنے کا اعلانکیا یہ جنگ امریکہ، ایران اور دیگر ممالک کو لیپٹ میں لے سکتی ہے؟
خدشہ یہ ہے کہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ چھڑنے سے پورا خطہ اس کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
ایران، شام، عراق اور یمن میں حزب اللہ، حماس اور دیگر عسکری گروپوں کی سرپرستی کرتا ہے۔ وہ تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کا الزام بھی اسرائیل پر لگا چکا ہے جس کی اسرائیل تائید یا تردید نہیں کرتا۔ ایران بدلہ لینے کا عزم ظاہر کر چکا ہے۔
غزہ جنگ کے بعد سے ایران کے حمایت یافتہ عسکری گروپوں نے متعدد بار اسرائیلی، امریکی اور بین الاقوامی اہداف پر حملے کیے ہیں۔ حزب اللہ کے ساتھ جنگ شروع ہونے سے ان حملوں میں اضافہ اور تیزی آسکتی ہے۔
SEE ALSO: غزہ جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے مذاکرات؛ معاہدے پر اتفاق نہ ہو سکاامریکہ نے اسرائیل کی حمایت میں اپنے بحری جنگی جہاز خطے میں منتقل کیے ہیں، جن میں طیارہ بردار جہاز بھی شامل ہیں۔ امریکی اتحاد نے اپریل میں ایران کی جانب سے جوابی کارروائی میں سینکڑوں میزائلوں کو اسرائیل کی طرف جانے سے روکا تھا۔
غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں کے اہداف وسیع تر ہیں
غزہ میں جنگ بند کروانے کے لیے امریکہ، مصر اور قطر کئی مہینوں سے کوششیں کر رہے ہیں اور ان کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان کئی بار مذاکرات ہو چکے ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں کچھ امید افزا اشارے ملے ہیں جس سے جلد کوئی معاہدہ طے پا سکتا ہے۔ سفارت کاروں کو توقع ہے کہ معاہدہ ہونے سے خطے میں درجہ حرارت گھٹانے میں مدد ملے گی۔
حزب اللہ کے حسن نصراللہ کا کہنا ہے کہ مذاکرات کو کامیابی کا موقع دینے کے لیے جوابی حملہ مؤخر کر دیا ہے۔حزب اللہ نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے بعد وہ سرحد پار سے اپنے حملے روک دے گا۔
SEE ALSO: اسرائیلی فوج اپنی توجہ لبنان پر مرکوز کر رہی ہے: وزیر دفاعیہ واضح نہیں ہے کہ ایران ہنیہ کے قتل پر جوابی کارروائی کی اپنی دھمکی کو واپس لےگا، یا اپنے منصوبے میں کچھ کمی کر دے گا۔ لیکن امکانی طور پر تہران جنگ بندی کے کسی معاہدے کو خراب کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہے گا۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ کرانے کے لیے شدید سفارتی دباؤ ہے۔ لیکن اتوار کے روز کی بات چیت اسرائیل کے اس مطالبے پر آگے نہ بڑھ سکی کہ وہ غزہ کی دو اسٹریٹجک اہمیت کی راہداریوں پراپنی دیرپا موجودگی چاہتا ہے۔ اس مطالبے کو حماس اور مصر نے مسترد کر دیاہے۔
(اس رپورٹ کے لیے معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)