ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا ہے کہ، ’1948ء کے بعد سےبلوچستان میں یہ پانچویں سرکشی ہے۔ مذاکرات بھی ہوتے رہے ہیں اور لڑائی بھی۔ اور اگر، ہم بات چیت کے لیے صحیح ماحول پیدا کرلیں تو ہمیں ایک سیاسی حل مل جائے گا‘
واشنگٹن —
پاکستان کے صوبہٴ بلوچستان میں قائم نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبد المالک نے کہا ہے کہ اُن کی جماعت کی اولین ترجیح بلوچ باغیوں سے مذاکرات کے لیے ایک سازگار ماحول تیار کرنا ہے، تاکہ مسئلے کا حل تلاش کیا جاسکے۔
’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس سےایک انٹرویو میں اُنھوں نےکہا کہ وہ بلوچ باغیو ں سے مذاکرات کے امکانات کے بارے میں پُر امید ہیں۔
اُنھوں نے اِس جانب توجہ دلائی کہ 1948ء کے بعد سے، بقول اُن کے، بلوچستان میں یہ پانچویں سرکشی ہے۔
ڈاکٹر عبد المالک نے کہا کہ مذاکرات بھی ہوتے رہے ہیں اور لڑائی بھی اور اگر ہم بات چیت کے لیے صحیح ماحول پیدا کرلیں تو ہمیں ایک سیاسی حل مل جائے گا۔
اُنھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اُن کی پارٹی اپنے منشور میں درج مسائل کی بنیاد پر ووٹ طلب کرے گی جِن میں بلوچستان میں سرگرم کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں، امن و امان کا مسئلہ، بیروزگاری اور تعلیم شامل ہے۔
آگے چل کر اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ بلوچستان میں وسائل، بندرگاہ اور معدنیاتی ذخائر کی ملکیت بھی ایک ترجیح ہے۔
ڈاکٹر عبد المالک نے الزام لگایا کہ بلوچستان میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی کارکردگی نہایت افسوس ناک رہی ہے۔
اُنھوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ پیپلز پارٹی کو بلوچستان میں کم ووٹ ملیں گے، اور بقول اُن کے، قوم پرست پارٹیاں اور مذہبی جماعتیں مثلاً نیشنل پارٹی، پختون خواہ ملی عوامی پارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام کو سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر زیادہ ووٹ ملیں گے۔
تاہم، ڈاکٹر عبد المالک نے یہ بھی کہا کہ جن علاقوں میں قبائلی لیڈروں کا کنٹرول ہے وہاں ووٹرز اسی پارٹی کو ووٹ دیں گے جس مین اُن کے لیڈرز شمولیت اختیار کریں گے۔
اُن کے الفاظ میں، مسلم لیگ کا حلقہ جاگیرداروں، نوابوں اور قبائلی سرداروں میں موجود ہے۔
(انٹرویو: قمر عباس جعفری)
تفصیلی انٹرویو سننے کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے:
’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس سےایک انٹرویو میں اُنھوں نےکہا کہ وہ بلوچ باغیو ں سے مذاکرات کے امکانات کے بارے میں پُر امید ہیں۔
اُنھوں نے اِس جانب توجہ دلائی کہ 1948ء کے بعد سے، بقول اُن کے، بلوچستان میں یہ پانچویں سرکشی ہے۔
ڈاکٹر عبد المالک نے کہا کہ مذاکرات بھی ہوتے رہے ہیں اور لڑائی بھی اور اگر ہم بات چیت کے لیے صحیح ماحول پیدا کرلیں تو ہمیں ایک سیاسی حل مل جائے گا۔
اُنھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اُن کی پارٹی اپنے منشور میں درج مسائل کی بنیاد پر ووٹ طلب کرے گی جِن میں بلوچستان میں سرگرم کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں، امن و امان کا مسئلہ، بیروزگاری اور تعلیم شامل ہے۔
آگے چل کر اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ بلوچستان میں وسائل، بندرگاہ اور معدنیاتی ذخائر کی ملکیت بھی ایک ترجیح ہے۔
ڈاکٹر عبد المالک نے الزام لگایا کہ بلوچستان میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی کارکردگی نہایت افسوس ناک رہی ہے۔
اُنھوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ پیپلز پارٹی کو بلوچستان میں کم ووٹ ملیں گے، اور بقول اُن کے، قوم پرست پارٹیاں اور مذہبی جماعتیں مثلاً نیشنل پارٹی، پختون خواہ ملی عوامی پارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام کو سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر زیادہ ووٹ ملیں گے۔
تاہم، ڈاکٹر عبد المالک نے یہ بھی کہا کہ جن علاقوں میں قبائلی لیڈروں کا کنٹرول ہے وہاں ووٹرز اسی پارٹی کو ووٹ دیں گے جس مین اُن کے لیڈرز شمولیت اختیار کریں گے۔
اُن کے الفاظ میں، مسلم لیگ کا حلقہ جاگیرداروں، نوابوں اور قبائلی سرداروں میں موجود ہے۔
(انٹرویو: قمر عباس جعفری)
تفصیلی انٹرویو سننے کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے:
Your browser doesn’t support HTML5