واشنگٹن —
پاکستان مسلم لیگ(قائد اعظم) کے سربراہ، چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ جوں جوں انتخابات قریب آئیں گے، اُن کے الفاظ میں، سیاسی افراتفری کی حالت میں اضافہ ہوگا۔ اُن کے بقول، ’پاکستان کی سیاسی فضا ابھی اور خراب ہوگی، سیاسی افراتفری کا عالم ہوگا‘۔
یہ معلوم کرنے پر کہ آپ کن وعدوں پر لوگوں سے ووٹ لیں گے، ’وائس آف امریکہ‘ سے چند روز قبل ایک خصوصی گفتگو میں چودھری شجاعت نے کہا کہ، ’ہم جھوٹے وعدوں میں یقین نہیں رکھتے۔ جہاں تک پانچ سال کی کارکردگی کا سوال ہے، اس پر لوگوں کی نظر ضرور ہوگی‘۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ کسی ایک جماعت کی بات نہیں، تمام سیاسی جماعتوں کی کارکردگی پیشِ نظر ہوگی۔
لیکن، ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ، ’ووٹ نہ نظریاتی بنیادوں پر ہوگا نہ سیاسی بنیادوں پر، نہ اجتماعی بنیادوں پر ہوگا، بلکہ ذاتی بنیادوں پر ووٹ ہوگا‘۔
’آپ دیکھیں گے کہ، اگلے مہینے کے اندر لوگ اس طرح کی قلابازیاں لگائیں گے کہ آپ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ صرف الیکشن جیتنے کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں‘۔
یہ معلوم کرنے پر کہ اُن کےخیال میں آئندہ کےپارلیمان میں وہ پارٹی پوزیشن کو کس طرح دیکھتے ہیں، مسلم لیگ ق کے سربراہ کا کہنا تھا کہ، ’یہ بالکل سرپرائز بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن، پھر بھی کھچڑی پکے گی۔۔۔مجھے لگتا یوں ہے کہ اِس وقت کی اکثریت اور اقلیت کا معاملہ سب بکھر جائے گا‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ،’ آزاد امیدوار بھی آپ کے سامنے آجائیں گے۔ وہ بھی ایک پارٹی بن جائے گی‘۔
انتخابی اتحاد سےمتعلق ایک سوال پر، چودھری شجاعت نے کہا کہ اُن کی جماعت کا اِس وقت پیپلز پارٹی کے ساتھ ’سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ‘ ہے، لیکن، اُن کے بقول، اگر کسی حلقے میں کوئی امیدوارموجود نہ ہو تو اُس صورت میں کسی دوسری پارٹی کے اعتماد کےامیدوار کے ساتھ مقامی سطح پر ایڈجسٹمنٹ کا ہونا بعید از قیاس نہیں۔
سابق صدر اور آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ، پرویز مشرف کے ساتھ اتحاد سے متعلق سوال پر چودھری شجاعت کا کہنا تھا کہ اِس بات کا کوئی امکان نہیں۔
خارجہ امور کے بارے میں سوال پر، اُنھوں نے کہا کہ ہمسایوں سےتعلقات کی بہتری اولین ترجیح ہونی چاہیئے۔
طالبان سےبات چیت سےمتعلق سوال کےجواب میں چودھری شجاعت حسین نے کہا، پہلے اِس بات کا تعین کیا جائے کہ کون سے طالبان سےبات چیت ہو۔ اُن کے بقول، سب کے ذاتی مفادات ہیں، جب کہ اصل طالبان تو پتہ نہیں کہاں ہیں؟ (انٹرویو: قمر عباس جعفری)
تفصیلی انٹرویو سننے کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجیئے:
یہ معلوم کرنے پر کہ آپ کن وعدوں پر لوگوں سے ووٹ لیں گے، ’وائس آف امریکہ‘ سے چند روز قبل ایک خصوصی گفتگو میں چودھری شجاعت نے کہا کہ، ’ہم جھوٹے وعدوں میں یقین نہیں رکھتے۔ جہاں تک پانچ سال کی کارکردگی کا سوال ہے، اس پر لوگوں کی نظر ضرور ہوگی‘۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ کسی ایک جماعت کی بات نہیں، تمام سیاسی جماعتوں کی کارکردگی پیشِ نظر ہوگی۔
لیکن، ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ، ’ووٹ نہ نظریاتی بنیادوں پر ہوگا نہ سیاسی بنیادوں پر، نہ اجتماعی بنیادوں پر ہوگا، بلکہ ذاتی بنیادوں پر ووٹ ہوگا‘۔
’آپ دیکھیں گے کہ، اگلے مہینے کے اندر لوگ اس طرح کی قلابازیاں لگائیں گے کہ آپ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ صرف الیکشن جیتنے کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں‘۔
یہ معلوم کرنے پر کہ اُن کےخیال میں آئندہ کےپارلیمان میں وہ پارٹی پوزیشن کو کس طرح دیکھتے ہیں، مسلم لیگ ق کے سربراہ کا کہنا تھا کہ، ’یہ بالکل سرپرائز بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن، پھر بھی کھچڑی پکے گی۔۔۔مجھے لگتا یوں ہے کہ اِس وقت کی اکثریت اور اقلیت کا معاملہ سب بکھر جائے گا‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ،’ آزاد امیدوار بھی آپ کے سامنے آجائیں گے۔ وہ بھی ایک پارٹی بن جائے گی‘۔
انتخابی اتحاد سےمتعلق ایک سوال پر، چودھری شجاعت نے کہا کہ اُن کی جماعت کا اِس وقت پیپلز پارٹی کے ساتھ ’سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ‘ ہے، لیکن، اُن کے بقول، اگر کسی حلقے میں کوئی امیدوارموجود نہ ہو تو اُس صورت میں کسی دوسری پارٹی کے اعتماد کےامیدوار کے ساتھ مقامی سطح پر ایڈجسٹمنٹ کا ہونا بعید از قیاس نہیں۔
سابق صدر اور آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ، پرویز مشرف کے ساتھ اتحاد سے متعلق سوال پر چودھری شجاعت کا کہنا تھا کہ اِس بات کا کوئی امکان نہیں۔
خارجہ امور کے بارے میں سوال پر، اُنھوں نے کہا کہ ہمسایوں سےتعلقات کی بہتری اولین ترجیح ہونی چاہیئے۔
طالبان سےبات چیت سےمتعلق سوال کےجواب میں چودھری شجاعت حسین نے کہا، پہلے اِس بات کا تعین کیا جائے کہ کون سے طالبان سےبات چیت ہو۔ اُن کے بقول، سب کے ذاتی مفادات ہیں، جب کہ اصل طالبان تو پتہ نہیں کہاں ہیں؟ (انٹرویو: قمر عباس جعفری)
تفصیلی انٹرویو سننے کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجیئے: