|
پاکستان کے صوبے بلوچستان میں مسافر ٹرین 'جعفر ایکسپریس' پر کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے حملے کے بعد مسافروں کی زندہ واپسی اور 33 عسکریت پسندوں کی ہلاکت کے دعوے کے بہت سے حقائق ابھی سامنے نہیں آئے ہیں۔
وزیرِ اعظم اور حکام کے بیانات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جعفر ایکسپریس ریسکیو آپریشن کے دوران 339 مسافروں کو بازیاب کرایا گیا جب کہ اس واقعے میں 21 مسافر اور چار سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ لیکن مسافروں کی بازیابی سے متعلق حکام کے دعوؤں کی آزاد ذرائع سے اب تک تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
حکومتی دعوؤں کے برعکس ٹرین میں سوار بعض مسافروں کے مطابق انہیں واقعے کے پہلے روز سیکیورٹی فورسز نے بازیاب نہیں کرایا بلکہ وہ خود موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے یا پھر انہیں عسکریت پسندوں نے جانے کی اجازت دی۔ ان افراد میں زیادہ تعداد بچوں، خواتین اور بزرگوں کی بتائی جاتی ہے۔
وائس آف امریکہ نے کئی تجزیہ کاروں سے بات کی جن کے مطابق حکومت نےاب تک اس واقعے کی مکمل تفصیلات فراہم نہیں کی ہے جس کی وجہ سے حکومتی دعوؤں کی تصدیق نہیں ہو پا رہی ہے۔
مسافروں نے کیا کہا؟
سلمان علی ان سینکڑوں مسافروں میں سے ایک تھے جو 11 مارچ کوکوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر سوار تھے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کوئٹہ سے ٹرین صبح وقت پر نکلی تھی۔ لیکن تقریباً دوپہر ڈیڑھ بجے کے قریب پانیر ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک دھماکے کے بعد ریل گاڑی نسبتاً سنسان علاقے میں رک گئی۔
سلمان کے مطابق ٹرین رکنے کے بعد اردگرد سے فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں۔ کچھ دیر میں انہیں ایک درجن کے قریب مسلح افراد قریبی پہاڑوں سے آتے دکھائی دیے۔ اس دوران وہ ٹرین کے اطراف میں مسلسل فائرنگ کررہے تھے جس کے باعث مسافر خوف زدہ ہوگئے اور گولیوں سے بچنے کے لیے نشستوں کے نیچے چھپ گئے۔
ان کے بقول اس دوران ٹرین کا کوئی شیشہ بھی سلامت نہیں بچا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ فائرنگ کے بعد مسلح افراد نے لوگوں کو باہر آنے کو کہا۔ سلمان کے مطابق باہر نہ جانے والوں کو فائرنگ کرکے مار دیا گیا۔ باہر آنے کے بعد خواتین اور بزرگوں کو ایک جانب جانے کو کہا گیا جب کہ دیگر کے شناختی کارڈ چیک کرکے ان کی دو الگ ٹولیاں بنائی گئیں۔
SEE ALSO: رپورٹر ڈائری: قومی اسمبلی میں جعفر ایکسپریس پر حملے کی گونجسلمان علی کے مطابق فوج اور حکومت کے مختلف محکموں سے تعلق رکھنے والوں کو ایک جانب بٹھایا گیا اور دیگر مسافروں کو پورا دن دوسر ی جانب میدان میں بٹھا کر رکھا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو شام کے وقت جانے کی اجازت دے دی گئی۔
سلمان علی نے دعویٰ کیا کہ کئی گھنٹے پیدل چلنے کے بعد انہیں ایک چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن کے قریب فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کی چیک پوسٹ نظر آئی تو جان میں جان آئی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ایک اور مسافر جمشید اجمل نے بتایا کہ عسکریت پسندوں نے پنجابی اور سرائیکی قومیت سے تعلق رکھنے والوں کو الگ کھڑا کر دیا تھا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہمارے سامنے ٹرین میں سفر کرنے والے پولیس والوں کو ہاتھ پاؤں باندھ کر گولیاں ماری گئیں۔ رات ایک بجے کے قریب پھر کچھ لوگوں کو ایسے ہی نکالا گیا اور انہیں بھی قتل کر دیا گیا۔
جمشید اجمل کے مطابق رات کو اندھیرے میں موقع دیکھتے ہوئے وہ اور کچھ اور لوگ وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے اور کئی گھنٹوں بعد ایک محفوظ مقام پر پہنچے۔ وہاں سے ان مسافروں کو مچھ ریلوے اسٹیشن اور پھر وہاں سے فریٹ ٹرین کے ذریعے کوئٹہ واپس پہنچایا گیا۔
ایک اور مسافر اللہ دتہ نے میڈیا کو بتایا کہ ان سمیت کئی مسافر جن میں سادہ لباس میں غیر مسلح فوجی بھی شامل تھے، وہ ہمت کرکے موقع سے فرار ہوئے۔ ایسے میں کئی افراد گولیاں لگنے سے زخمی بھی ہوئے۔
کچھ اسی طرح کے خیالات دیگر مسافروں کی زبانی بھی سننے کو ملے جن سے مختلف میڈیا ٹیموں نے گفتگو کی۔
بیشتر مسافروں کے انٹرویوز سے پتا چلتا ہے کہ ٹرین پر حملے کے کافی دیر بعد بھی عسکریت پسندوں کا ٹرین اور اس کے مسافروں پر مکمل کنٹرول تھا اور انہوں نے خود خواتین، بچوں اور بزرگ مسافروں کو جانے کی اجازت دی تھی۔
واپس آنے والے مسافروں کی بات چیت سے یہ بھی لگتا ہے کہ منگل کی رات تک فوج یا قانون نافذ کرنے والے ادارے اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ وہ انہیں 'بازیاب' کراتے۔
آپریشن فوری شروع کردیا تھا: ڈی جی آئی ایس پی آر
دوسری جانب واقعے کے چند گھنٹوں بعد ہی میڈیا میں سیکیورٹی ذرائع سے یہ خبریں سامنے آنے لگیں کہ سیکیورٹی فورسز نے بہت سے مسافروں کو بازیاب کرا لیا گیا ہے۔ سیکیورٹی ذرائع سے آنے والی ابتدائی معلومات میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ104 مسافروں کو آپریشن کے ذریعے بازیاب کر الیا گیا ہے جن میں 58 مرد، 31 خواتین اور 15بچے شامل ہیں۔
SEE ALSO: بلوچستان ٹرین حملے کو افغانستان سے جوڑنے کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں: افغان طالبانیہ معلومات پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز اور دیگر ذرائع ابلاغ نے من و عن رپورٹ کیں۔ لیکن کہیں بھی اس آپریشن کی مزید تفصیل بیان نہیں کی گئی۔
ادھر جعفر ایکسپریس حملے کے دوسرے روز ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے نجی نیوز چینل 'دنیا نیوز' کے پروگرام 'آن دا فرنٹ' کے اینکر کامران شاہد سے بات کی جس میں انہوں نے بتایا کہ عسکریت پسندوں نے مسافروں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جس میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ مسافروں کی بازیابی کے لیے آپریشن فوری طور پر شروع کیا گیا تھا جس میں آرمی، ایئر فورس، ایف سی اور فوج کے اسپیشل سروسز گروپ کے جوانوں نے بھی حصہ لیا اور مرحلہ وار یرغمالوں کو بازیاب کرایا گیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فورسز کے ماہر نشانہ بازوں نے پہلے خودکش بمباروں کو ہلاک کیا۔ جس کے بعد یرغمال مسافر وہاں سے بھاگے اور پھر سیکیورٹی فورسز نے مرحلہ وار ہر بوگی کی کلیئرنس کی۔
لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کے مطابق اس دوران وہاں موجود 33 دہشت گرد جب کہ چار ایف سی اہلکار ہوئے۔ ان کے بقول کلیئرنس آپریشن میں کسی یرغمال مسافر کو نقصان نہیں پہنچا۔ لیکن عسکریت پسندوں نے اس سے قبل ہی 21 مسافروں کو ہلاک کر دیا تھا۔
بعد ازاں جمعے کو ایک پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر نےجعفر ایکسپریس حملے میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا بتاتے ہوئے کہاکہ واقعے میں26 مسافر ہلاک ہوئے جن میں 18 سیکیورٹی اہلکار تھے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے گفتگو کے دوران یہ بھی بتایا کہ میڈیا کو سیکیورٹی ذرائع سے خبریں ہم دے رہے تھے اور ہم نے بتایا تھا کہ دہشت گردوں نے ٹولیوں میں مسافروں کو بٹھائے رکھا ہے اور ان کے ساتھ خودکش بمبار بھی بیٹھے ہیں۔
حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی کالعدم علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی کے ترجمان نے میڈیا کو جاری کردہ ایک بیان میں پاکستان فوج کے آپریشن ختم کرنے کے دعوے کو جھوٹ پر مبنی قرار دیا۔
بی ایل اے کے ترجمان کے مطابق جن مسافروں کو ریسکیو آپریشن میں بازیاب کرانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ بی ایل اے نے اپنی "جنگی اخلاقیات اور اصولوں"ے تحت خود رہا کیے تھے۔ بی ایل اے نے دعویٰ کیا تھا کہ فوج اپنے محصور اہلکاروں کو بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
ادھر کوئٹہ پہنچنے والے جن مسافروں نے خود بات کی ان کے بیانات سے بھی اس دعوے کی تصدیق نہیں ہو تی کہ بیشتر مسافر سیکیورٹی فورسز کی کسی کارروائی میں بازیاب ہوئے۔
سیکیورٹی ذرائع سے ملنے والی ویڈیو زاور ریکارڈڈ انٹرویوز
وائس آف امریکہ کی جانب سے حقائق جاننے کی کوشش کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ جہاں مختلف میڈیا ٹیموں نے مسافروں کے انٹرویوز کیے تو وہیں سیکیورٹی ذرائع کی جانب سے بھی ٹرین ڈرائیور، گارڈ اور بعض ایسے لوگوں کے انٹرویوز ریکارڈ اور ایڈٹ کرکے مقامی میڈیا کو دیے گئے، جن کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ ٹرین کے مسافر تھے۔
سیکیورٹی ذرائع سے ملنے والے ریکارڈڈ انٹرویوز میں ایک ٹرین ڈرائیور کا ہے۔اس انٹرویو میں ٹرین ڈرائیور کا کہنا تھا کہ پاکستان فوج کے ایس ایس جی(اسپیشل سروسز گروپ)کے کمانڈوز کی بروقت کارروائی کی وجہ سے آپریشن ہوا اور اس کامیاب آپریشن کے باعث ہماری جان بچ گئی۔ ٹرین ڈرائیور نے فوج کا اس کارروائی پر شکریہ بھی ادا کیا ہے۔
اسی ویڈیو کلپ میں آگے جاکر ٹرین کے سیکیورٹی گارڈ اور چار مرد مسافروں کے انٹرویوز بھی شامل ہیں جس میں بیان کردہ حالات کے مطابق ایف سی اور آرمی کی ٹیمیں موقع پر "بروقت" پہنچیں اور آپریشن میں حصہ لیا جس سے قیمتی جانیں بچنا ممکن ہوئیں۔
کیا سیکورٹی ذرائع سے ملنے والی معلومات کی تصدیق کی گئی؟
وائس آف امریکہ نے منگل اور بدھ کو جعفر ایکسپریس آپریشن کے دوران مختلف نیوز رومز میں موجود ذمہ ذار صحافیوں سے بھی گفتگو کی۔لیکن وہ پوچھے گئے سوالات کا جواب آن ریکارڈ جواب دینے پر تیار نہیں ہوا۔
ایک نیوز چینل کی سینئر پوزیشن پر موجود عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سیکیورٹی ذرائع کی جانب سے اس طرح کی معلومات پہلی مرتبہ نہیں آئیں بلکہ جو رپورٹرز سیکیورٹٰ فورسز کی بیٹ کرتے ہیں ان کے پاس ایسے بنے بنائے ٹکرز آتے رہتے ہیں جنہیں چلانا نیوز روم کے لیےلازمی ہوتا ہے۔
SEE ALSO: سرداروں سے سرمچاروں تک؛ بلوچ عسکریت پسندی میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں؟اس سوال پر کہ یہ ٹکرز کہاں سے بنے بنائے آتے ہیں اور اس پر متعلقہ رپورٹرز سے کوئی مزید سوالات ہوتے ہیں یا نہیں؟ اور کیا اس معلومات کو مزید ذرائع سے کراس چیک کیا جاتا ہے یا نہیں؟ عہدے دار نے کوئی جواب نہیں دیا اور بات ہنس کر ٹالتے ہوئے کہا کہ آپ زیادہ معصوم نہ بنیں۔
سینئر پوزیشن پر موجود عہدے دار نے مزید بتایا کہ جعفر ایکسپریس کے آپریشن کے دوران سیکیورٹی ذرائع سے ملنے والی خبروں پر من و عن اکتفا کرنا ان کے لیے ایک معمول کی بات تھی۔ اس میں کچھ بھی ایسا نہیں تھا جو نیا ہوا ہو۔ اب یہ پاکستانی نیوز روم کے لیے یہ ایک معمول بن چکا ہے۔
'اصل خبر کو چھپانے سے غلط معلومات اور پروپیگنڈا پھیلتا ہے'
صورتِ حال کو مزید سمجھنے کے لیے وائس آف امریکہ نے کچھ دیگر صحافیوں سے بھی گفتگو کی۔
سینئر صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ چونکہ بلوچستان اس وقت کانفلکٹ زون میں ہے اور وہاں جنگ جیسی صورتِ حال ہے۔ اس وجہ سے معلومات کی تصدیق کرنا مشکل امر ہے۔ لہٰذا مین اسٹریم میڈیا کو دستیاب واحد ذریعے پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سچائی اکثر جنگ کا پہلا شکار بن جاتی ہے۔
ان کے بقول جس جگہ یہ واقعہ ہوا ہے وہاں انٹرنیٹ سمیت فون بھی کام نہیں کر رہے تھے اور لوگوں کو معلومات نہیں مل پا رہی تھیں۔ اس واقعے سے متعلق حکومت کو مسلسل اپ ڈیٹس دینی چاہیے تھیں تاکہ لوگوں کو باخبر رکھا جاسکتا۔لیکن ایسا نہیں ہوا۔
مظہر عباس کے مطابق چوں کہ یہ ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے جہاں لوگ مین اسٹریم میڈیا چھوڑ کر سوشل میڈیا دیکھ رہے ہیں جہاں اس واقعے سے متعلق صحیح اور غلط معلومات کی بھرمار تھی۔
ان کے بقول جب بھی آپ معلومات کو دبانے یا چھپانے کی کوشش کریں گے یا اس میں تاخیر کریں گے تو وہ ہمیشہ غلط معلومات یعنی مس انفارمیشن اور پرپیگنڈے کے پھیلاؤ کا باعث بنے گی جو ہمیں اس واقعے میں بھی نظر آیا۔
واقعے سے جڑے بہت سے سوالات کے جواب دینے کو کوئی تیار نہیں
ایک اور تجزیہ کار اور سینئر صحافی زاہد حسین نے نشان دہی کی کہ پاکستان میں حقائق چھپانا وتیرہ بن چکا ہے۔ دہشت گردی کی اس طرح کی وارداتوں میں نہ حکومت اور نہ ہی سیکیورٹی ادارے فوری معلومات دیتے ہیں۔لہٰذا پھر لامحالہ طور پر لوگوں کا انحصار سوشل میڈیا پر ہو جاتا ہے جہاں غیر مصدقہ اطلاعات کی بھرمار ہوتی ہے۔
ان کے بقول جعفر ایکسپریس پر حملے، یرغمال بنانے کی اطلاع اور اس سے جڑی دیگر معلومات پہلے سوشل میڈیا پر ہی دستیاب تھیں۔
انہوں نے کہا کہ جب بھی معلومات چھپائی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کہیں کچھ غلط ہوا ہے۔ جعفر ایکسپریس پر حملہ پاکستان میں دہشت گردی کی بڑی کارروائیوں میں سے ایک تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس واقعے کی تفصیلات کو چھپایا کیوں گیا؟ یہ بات سمجھ سے باہر ہے۔
SEE ALSO: جعفر ایکسپریس حملہ افغانستان میں موجود دہشت گرد سرغنہ کی ہدایت پر ہوا: آئی ایس پی آر کا دعویٰزاہد حسین نے کہا کہ واقعے پر اب تک حکومت کی جانب سے کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ سوائے فوج کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کے اس بیان کے جو انہوں نے ایک ٹی وی چینل کو دیا۔ لیکن حقیقت میں اب بھی بہت کم چیزیں سامنے آئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی وجہ سے لوگو ں میں خدشات بھی پائے جاتے ہیں۔ حکومت نے محض یہ بتا دیا کہ تمام دہشت گرد مارے گئے اور سب کلیئر ہوگیا۔ لیکن یہ واقعہ کیسے ہوا؟ سیکیورٹی لیپس کیسے ہوا؟ ٹرین ہائی جیک کرنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ مرنے والوں کی کُل تعداد کتنی تھی؟ اور اس سے جڑے دیگر سوالات کا جواب نہیں مل پایا ہے۔
ان کے بقول چاہے جتنی بھی سنگین غلطیاں ہوئی ہوں، مگر ایسے واقعات پر پردہ ڈالنے سے مزید سوالات جنم لیتے ہیں۔
زاہد حسین کے خیال میں پاکستان میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اب بہت زیادہ کنٹرولڈ ہے اور سرکاری بیانات اور دعوؤں کی جانچ پڑتال نہیں کرتا۔
انہوں نے کہا کہ وہ چالیس سال سے صحافت سے منسلک ہیں لیکن اس قسم کی صورتِ حال پہلے بالکل نہیں تھی جو اب ہے۔ معلومات پر کنٹرول سے ایک ایسا ماحول پیدا ہوتا ہے جس سے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا پر مبنی دعوے پنپتے ہیں اور اس سے مین اسٹریم میڈیا کی ساکھ مزید ختم ہوتی جارہی ہے۔
ادھر سوشل میڈیا پر بھی اس واقعے سے متعلق سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
جعفر ایکسپریس حملے کا ڈراپ سین! دو دن کے واقعات کا خلاصہ
بعض سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ اگر ریلوے حکام کے دعوے کے مطابق جعفر ایکسپریس میں 400 سے زائد مسافر تھے اور ان میں سے حکومتی دعوے کے مطابق محض 21 ہلاکتیں ہوئیں تو باقی کہاں ہیں؟ کالعدم بی ایل اے نے کتنے مسافروں کو جانے دیا؟ کتنے لوگ عسکریت پسندوں کے چنگل سے بھاگ کر مچھ پہنچے؟ اور کتنے آپریشن میں بازیاب ہوئے؟ جب کہ زخمیوں کی اصل تعداد کے بارے میں بھی آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔
وزیر اعظم نے کیا کہا؟
دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف نے جمعرات کو کوئٹہ میں اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی فورسز نے حکمت عملی بنائی اور بچوں سمیت مسافروں کی جانیں بچائیں اور دہشت گردوں کا قلع قمع کیا۔
ترجمان وزیر اعظم ہاؤس کے مطابق شہباز شریف نے کہا کہ ہمیں چیف آف آرمی اسٹاف اور کور کمانڈر کوئٹہ کی قیادت میں سیکیورٹی فورسز، انٹیلی جینس ایجنسیوں اور ضرار کمپنی کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جنہوں نے 339مسافروں کو بچایا اور 33دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ وہ پاکستان کے عوام اور حکومت کی جانب سے خاص طور پر بلوچستان کی سیکیورٹی فورسز کو ان کی بہادری پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومتوں اور عوام کو ملک خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں امن کو یقینی بنانے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔