انگریزی زبان کی مشہور ناول نگار جین آسٹن کے خاندان پر ہونے والی ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ یہ خاندان غلامی کے خاتمے کی تحریک کا حامی تھا۔ جب کہ 50 برس پہلے اسی سلسلے کی ایک تحقیق میں یہ بتایا گیا تھا کہ آسٹن خاندان کے غلاموں کا کاروبار کرنے والے افراد سے مراسم تھے۔
'پرائڈ اینڈ پریجوڈیس' جیسے شاہکار ناول کی مصنفہ جین آسٹن کے مداح، جہاں ان کے ناولوں کے کرداروں اور کہانیوں کے رومان میں گم نظر آتے ہیں، وہیں محققین کی توجہ کا مرکز یہ بات رہی ہے کہ ایک ایسے دور میں جب انسانوں کی غلامی کو معاشرے میں قبولیت حاصل تھی اور غلامی کے خاتمے کی تحریک آہستہ آہستہ جڑ پکڑ رہی تھی، آسٹن اور ان کا سفید فام خاندان کیا سوچ رکھتا تھا۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، نئی تحقیق ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی کی پروفیسر ڈیوونی لوزر کی کوششوں کا نتیجہ ہے، جو اس سے پہلے جین آسٹن کی مقبولیت پر ایک کتاب لکھ چکی ہیں۔
لوزر کی آسٹن خاندان پر تحقیق کے اس حصے کو اگر علمی جاسوسی کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا ہے کہ جین آسٹن کے بھائی، ریورنڈ ہینری تھامس آسٹن 'ایچ اے آسٹن' کے نام سے مضامین لکھا کرتے تھے اور اسی نام کے ساتھ مختلف تقاریب میں شرکت کیا کرتے تھے۔
پروفیسر ڈیوونی لوزر کہتی ہیں کہ پھر وہ اس نام کی کھوج میں لگ گئیں اور اس وقت انہیں بڑی حیرت ہوئی جب انہوں نے 1840 میں لندن میں منعقد ہونے والے غلامی مخالف عالمی کنونشن میں شریک افراد کی فہرست میں 'ایچ اے آسٹن' کا نام بھی دیکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہینری اگلی نسل کے ایک ایسے آسٹن ثابت ہوئے، جو نسل پرستانہ رویوں اور غلامی کی کھل کر مخالفت کرتے تھے۔
ڈیوونی لوزر دی ٹائمز کے ادبی ضمیمے میں چھپے اپنے مقالے میں بتاتی ہیں کہ یہ الزام کہ اس خاندان کے سربراہ جارج آسٹن کے ویسٹ انڈین پلانٹیشن چلانے والے ایک خاندان سے روابط تھے، درست تو ہے مگر اس پر تحقیق کم ہوئی اور اس میں مبالغہ زیادہ نظر آتا ہے۔
پروفیسر ڈیوونی لوزر کا کہنا ہے کہ یہ دلچسپ بات ہے کہ کس طرح غلامی کے حامی آسٹن خاندان کی اگلی نسل وقت کے ساتھ انیسویں صدی میں جاری غلامی مخالف تحریک میں باقاعدہ حصہ لے رہی تھی۔
امریکہ کی مونٹ کلئیر سٹیٹ یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر پیٹریشیا اے میتھیو نے جین آسٹن کے خاندان پر اس نئی تحقیق کا خیر مقدم کیا ہے۔
پروفیسر میتھیو آسٹن کے زمانے کے ادب پر نہ صرف گہری نگاہ رکھتی ہیں بلکہ غلامی مخالف ادب بھی ان کے پڑھائے جانے والے کورسز کا حصہ ہے۔
پروفیسر میتھیو کا کہنا ہے گو کہ جین آسٹن کی تحریریں یہ ثابت نہیں کرتیں وہ ایک ایسی مصنفہ تھیں جو غلامی یا اس کے خاتمے کے لئے کھل کر لکھتی ہوں، مگر ان کے پڑھنے والوں کو اس وقت کے سیاسی اور سماجی پس منظر میں آسٹن کے خیالات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
جین آسٹن کا انتقال 1817 میں ہوا۔ اپنی 41 برس کی زندگی میں جین آسٹن نے چھ بڑے ناول لکھے جن میں انسانی فطرت اور رشتوں کی باریکیوں کو خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ مگر ان کہانیوں میں اس وقت کا سیاسی یا سماجی پس منظر کہیں نظر نہیں آتا۔
جین آسٹن کی تحریروں میں 'مینزفیلڈ پارک' اور 'ایما' ہی دو ایسے ناول ہیں جن میں کہانی کے کردار غلامی پر کچھ گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔
تاہم سوال یہ ہے کہ جین آسٹن کی غلامی کے بارے میں اپنی کیا سوچ تھی؟ پروفیسر ڈیوونی لوزر کو اس بات پر کوئی شک نہیں ہے کہ جین آسٹن ایک ایسی شخصیت تھیں، جو نسل پرستانہ تعصبات کو سمجھتی بھی تھیں اور اس کی مخالف بھی تھیں۔
پروفیسر لوزر کے مطابق آسٹن کے اپنے خطوط، جس میں انہوں نے غلامی مخالف سفید فام ادیب ہینری کلارکسن کی تحریروں کو بےحد پسند کیا ہے، اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ اس دور میں جاری غلامی مخالف تحریک کا بخوبی احساس رکھتی تھیں اور اس کی حامی بھی تھیں۔
ان کے ایک اور بھائی فرانسس کی ڈائری کا ایک حصہ بھی بیسوی صدی ہی میں منظر عام پر آیا، جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ برطانیہ یا دنیا کا کوئی بھی ایسا حصہ جو اس کی کالونی ہو، وہاں غلامی کا شائبہ ہونا بھی انتہائی افسوس ناک ہے۔
غلامی مخالف تحریک کے جواب میں برطانیہ نے 1807 میں انسانوں کی تجارت کے بین الاقوامی کاروبار پر پابندی لگا دی تھی، جب کہ 1833 تک کچھ علاقوں کے علاوہ اسے باقاعدہ غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا۔ کچھ عرصے بعد باقی رہ جانے والے علاقوں میں بھی غلامی ختم کر دی گئی تھی۔
پروفیسر ڈیوونی لوزر کی تحقیق ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب برطانیہ سمیت دنیا بھر میں پھر سے بڑھتے ہوئے نسلی تعصب پر آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔