مشرق وسطیٰ میں جاری تنازع پر ماہرین کا خیال ہے کہ داعش سے فوجی کارروائی کے ساتھ ساتھ نظریاتی بنیاد پر بھی نمٹنے کی ضرورت ہے۔
وائس آف امریکہ اردو سروس کے پروگرام ،جہاں رنگ، میں میزبان بہجت جیلانی سے بات کرتے ہوئے سعودی عرب کے ممتاز تجزیہ کار اور سکالر خالد المعینا نے دہشت گردی کے خلاف 34 مسلمان ملکوں کے اتحاد کو مغرب کی اس تنقید کا جواب قرار دیا کہ مسلمان دہشت گردی کے مقابلے میں متحد نہیں۔
انھوں نے کہا کہ مسلمان ممالک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ داعش سے نمٹنے کی عالمی کوششوں میں متحد نہیں، اب مسلم ممالک نے خود کو متحد کرلیا ہے توقع ہے کہ دنیا کی یہ شکایت دور ہو جائے گی۔
خالد المعینا کہتے ہیں کہ لوگوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ داعش کو منطقی بنیادوں پر شکست دی جانی چاہئے۔ وہ کہتے ہیں کہ فوجی کارروائیو ں کے ساتھ ساتھ ایک واضح موقف بہتر نتائج کا حامل ہو گا۔
خالد المعینا نے سعودی عرب میں میونسپل الیکشن میں سعودی خواتین کی بطور ووٹر اور امیدوار پہلی مرتبہ شرکت کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ پردے اور عبایا میں ملبوس سعودی خواتین کے بارے میں غلط طور پر منفی تاثر پایا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ زندگی کے ہر شعبے میں حصہ لے رہی ہیں اور بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔
خالد المعینا نے آنے والے وقت میں سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے مزید مثبت تبدیلیوں کی توقع کا اظہار کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5