پروفیسر غفور احمد 70ء اور 80ء کی دہائیوں میں پاکستانی سیاست کا مرکزی کردار تھے اور 1973ء کے متفقہ آئین کی تشکیل و تدوین میں بھی انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
کراچی —
پاکستان کے بزرگ سیاستدان اور 'جماعتِ اسلامی' کے نائب امیر پروفیسر غفور احمد کراچی میں انتقال کرگئے ہیں۔ ان کی عمر 85 برس تھی۔
جماعتِ اسلامی کے ایک ترجمان کے مطابق پروفیسر غفور گزشتہ چند ماہ سے علیل تھے اور طبیعت بگڑنے پر انہیں بدھ کو کراچی کے ایک نجی اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ انتقال کرگئے۔
پروفیسر غفور احمد ہندوستان کے شہر بریلی میں 1927ء میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان کے شہر کراچی منتقل ہوگئے تھے جہاں وہ 1950ء میں جماعتِ اسلامی سے وابستہ ہوئے۔
کراچی اور جماعت سے ان کی وابستگی دمِ آخر برقرار رہی۔ وہ جماعتِ اسلامی میں کئی ذمہ داریوں پر فائز رہنے کے علاوہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے رکن بھی رہے جب کہ 1973ء میں منظور کردہ پاکستان کے پہلے متفقہ آئین کی تشکیل و تدوین میں بھی انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
پروفیسر غفور احمد 70ء اور 80ء کی دہائیوں میں پاکستانی سیاست کا مرکزی کردار تھے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف بننے والے 'پاکستان قومی اتحاد (پی این اے)' کے سیکریٹری جنرل بھی رہے ۔
مرحوم اس تین رکنی کمیٹی کا حصہ تھے جس نے 'پی این اے' کی جانب سے وزیرِاعظم بھٹو سے فیصلہ کن مذاکرات کیے تھے تاہم ان کی کوششوں سے طے پانے والے معاہدے کے اعلان سے قبل ہی اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل ضیاالحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھال لیا تھا۔
بعد ازاں پروفیسر غفور کچھ ماہ کے لیے ضیا حکومت میں وفاقی وزیر بھی رہے۔ انہوں نے پاکستان کی سیاسی تاریخ اور اتار چڑھائو پر پانچ کتابیں بھی تصنیف کیں۔
پروفیسر غفور کو ملک کی کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں اور حلقوں میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور ماضی کے کئی چوٹی کے سیاست دانوں سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔
پروفیسرغفور سیاست میں سرگرم کردار ادا کرنے کے علاوہ کئی تجارتی اداروں سے بھی وابستہ رہے جب کہ انہوں نے کئی اہم تعلیمی اداروں میں معاشیات کے مضمون کی تدریس کے فرائض بھی انجام دیے۔
پروفیسر غفور احمد کے انتقال پر صدر آصف علی زرداری، وزیرِاعظم راجہ پرویز اشرف اور کئی دیگر سیاست دانوں نے تعزیت اور دکھ کا اظہار کیا ہے۔
جماعتِ اسلامی کے ایک ترجمان کے مطابق پروفیسر غفور گزشتہ چند ماہ سے علیل تھے اور طبیعت بگڑنے پر انہیں بدھ کو کراچی کے ایک نجی اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ انتقال کرگئے۔
پروفیسر غفور احمد ہندوستان کے شہر بریلی میں 1927ء میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان کے شہر کراچی منتقل ہوگئے تھے جہاں وہ 1950ء میں جماعتِ اسلامی سے وابستہ ہوئے۔
کراچی اور جماعت سے ان کی وابستگی دمِ آخر برقرار رہی۔ وہ جماعتِ اسلامی میں کئی ذمہ داریوں پر فائز رہنے کے علاوہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے رکن بھی رہے جب کہ 1973ء میں منظور کردہ پاکستان کے پہلے متفقہ آئین کی تشکیل و تدوین میں بھی انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
مرحوم اس تین رکنی کمیٹی کا حصہ تھے جس نے 'پی این اے' کی جانب سے وزیرِاعظم بھٹو سے فیصلہ کن مذاکرات کیے تھے تاہم ان کی کوششوں سے طے پانے والے معاہدے کے اعلان سے قبل ہی اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل ضیاالحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھال لیا تھا۔
بعد ازاں پروفیسر غفور کچھ ماہ کے لیے ضیا حکومت میں وفاقی وزیر بھی رہے۔ انہوں نے پاکستان کی سیاسی تاریخ اور اتار چڑھائو پر پانچ کتابیں بھی تصنیف کیں۔
پروفیسر غفور کو ملک کی کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں اور حلقوں میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور ماضی کے کئی چوٹی کے سیاست دانوں سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔
پروفیسرغفور سیاست میں سرگرم کردار ادا کرنے کے علاوہ کئی تجارتی اداروں سے بھی وابستہ رہے جب کہ انہوں نے کئی اہم تعلیمی اداروں میں معاشیات کے مضمون کی تدریس کے فرائض بھی انجام دیے۔
پروفیسر غفور احمد کے انتقال پر صدر آصف علی زرداری، وزیرِاعظم راجہ پرویز اشرف اور کئی دیگر سیاست دانوں نے تعزیت اور دکھ کا اظہار کیا ہے۔