امریکہ کے وزیرِ دفاع جم میٹس پیر کو اسلام آباد پہنچے، جہاں اُنھوں نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی۔
وزیراعظم ہاؤس سے جاری ایک بیان کے مطابق امریکی وزیر دفاع جم میٹس کے حوالے سے کہا گیا کہ اس دورے کا مقصد طویل المدت تعلق کے لیے مشترکہ راستہ تلاش کرنا ہے۔
اُنھوں نے خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
اس موقع پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان روابط کو کثیر الجہتی بنانے کی ضرورت ہے۔
بیان کے مطابق پاکستانی وزیراعظم نے جم میٹس کے اس موقف سے اتفاق کیا کہ افغانستان میں دیرپا امن و سلامتی کے حصول کے بارے میں پاکستان اور امریکہ کے مفادات مشترک ہے۔
اُنھوں نے امریکہ کے اس عزم کو بھی سراہا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔
بیان کے مطابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان میں شدت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہیں نہیں ہیں اور پوری قوم ہر طرح کی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عزم پر قائم ہے۔
اس ملاقات میں وزیرِ خارجہ خواجہ آصف، وزیرِ دفاع خرم دستگیر، وزیرِ داخلہ احسن اقبال، وزیرِ اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ کے علاوہ انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل نوید مختار بھی شریک تھے۔
امریکی وزیرِ دفاع اپنے ایک روزہ دورے کے دوران پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کریں گے۔
بطور وزیر دفاع جم میٹس کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہے۔ جم میٹس صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے دوسرے اعلیٰ عہدیدار ہیں جو پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ اس سے قبل اکتوبر میں امریکہ کے وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔
اسلام آباد آمد سے قبل اپنے فوجی طیارے میں ساتھ سفر کرنے والے صحافیوں سے گفتگو میں جم میٹس نے کہا تھا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق اپنے وعدے پورے کرے گا۔
اُنھوں نے اس توقع کا اظہار بھی کیا کہ دونوں ملک ایک مشترکہ موقف پر متفق ہو سکیں گے اور ’’پھر ہم مل کر کام کریں گے۔‘‘
امریکی وزیرِ دفاع جم میٹس نے اکتوبر میں ایک بیان میں کہا تھا کہ اُن کا ملک ایک مرتبہ پھر پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے۔
امریکہ کا یہ موقف رہا ہے کہ پاکستان میں افغان طالبان کے دھڑے حقانی نیٹ ورک کی پناہ گاہیں ہیں اور یہ گروپ افغان فورسز کے علاوہ افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج پر حملے کرتا رہا ہے۔
افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج کے امریکی کمانڈر جنرل جان نکولسن نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اسلام آباد سے متعلق سخت موقف اپنانے کے باوجود اُن کے بقول دہشت گردوں کی حمایت کے بارے میں پاکستان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
تجزیہ کار بریگیڈیر (ریٹائرڈ) اسد منیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ امریکہ کی سب سے بڑی تشویش پاکستان میں شدت پسندوں کی مبینہ پناہ گاہیں ہیں۔
’’جس طرح جنرل نکولسن نے بھی کہا ہے کہ پاکستان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو پاکستان والے ان کو بولیں گے کہ ہم نے آپ سے پہلے بھی درخواست کی تھی اور ابھی بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ کے پاس کوئی اطلاعات ہیں حقانی نیٹ ورک کے متعلق یا طالبان کے بارے میں تو ہمارے ساتھ شئیر کریں۔ اگر پھر بھی ہم نے کارروائی نہ کی تو پھر آپ دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ پاکستان ڈو مور نہیں کر رہا۔‘‘
اسد منیر کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان جن معاملات پر اختلاف ہے اُسے دور کرنے کا سب سے بہتر راستہ زیادہ اور مؤثر رابطے ہی ہیں۔
’’جب آپ آپس میں بیٹھتے ہیں اور ایک دوسرے کا مؤقف سنتے ہیں تو اس سے بہت فرق پڑتا ہے۔ تو ملنے سے تعلقات اچھے ہوں گے اور ان کو اس سے زیادہ ملنا چاہیے۔‘‘
اُدھر امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈائریکٹر مائیک پومپیو نے خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان نے اپنی حدود میں دہشت گردوں کی محفوظ پناگاہوں کو ختم نا کیا تو امریکہ اس بارے میں ہر ممکن اقدامات کرے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان افغانستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق امریکی انتظامیہ کی پالیسی پر عمل درآمد کرے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان محمد فیصل کہہ چکے ہیں کہ جنوبی ایشیا سے متعلق امریکی انتظامیہ کی پالیسی پر اسلام آباد اور واشنگٹن کے نکتۂ نظر میں فاصلہ ہے جسے کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ اختلافات اور فاصلوں کو کم کرنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔
گزشتہ ماہ ہی امریکہ کی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل جوزف ووٹل نے بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا جس میں افغانستان کی سکیورٹی کی صورتِ حال پر بات چیت کی گئی تھی۔
جب کہ گزشتہ ہفتے افغانستان کے ایک اعلیٰ سطحی عسکری وفد نے پاکستان کے دو روزہ دورے کے دوران سلامتی کی صورت حال خاص طور پر ایک دوسرے کے ہاں شدت پسندوں کی پناہ گاہوں اور اُن کے خلاف کارروائی کے بارے میں بات چیت کی تھی۔