امریکی وزیر دفاع، جم میٹس ایک ایسے وقت پاکستان کا دورہ کرنے والے ہیں، جب کالعدم تنظیم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کی گزشتہ ہفتے رہائی کے بعد، امریکہ پاکستان کو متنبہ کر چکا ہے کہ اس اقدام سے پاک امریکہ تعلقات متاثر ہونگے اور یہ کہ حافظ سعید کو دوبارہ گرفتار کرکے ان پر مقدمہ چلایا جائے۔
اسکے علاوہ، حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا مسئلہ بھی ابھی تک حل طلب ہے اور سب سے بڑھ کر اسلام آباد اور ملک کے دیگر شہروں میں مذہبی جماعتوں کی جانب سے حکومت مخالف احتجاج بھی جاری ہیں اور عالمی میڈیا میں پولیس اور مذہبی لوگوں کے مابین جھڑپوں کی تصویریں گردش کر رہیں ہیں۔
امریکی تجزیہ نگار، ڈاکٹر طاہر روہیل کہتے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ حالات سے قطع نظر، جم میٹس کے دورے میں خطے اور خاص طور پر افغانستان میں قیام امن کا موضوع ایجنڈا پر سرفہرست ہوگا اور یہ پاکستان کی طرف سے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ دہششگردی سے متعلق پاکستان کے بیانیے کی امریکی کانگرس، میڈیا، امریکی عوام اور سفارتی حلقوں میں کوئی پذیرائی نہیں پائی جاتی۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ حافظ سعید کی رہائی کا معاملہ ایک دوسرا بڑا اہم موضوع ہوگا جو امریکہ کی جانب سے اٹھایا جائے گا، کیونکہ امریکہ کی نظر میں لشکر طیبہ ایک عالمی دشتگرد تنظیم ہے اور اسکے سربراہ حافظ سعید امریکی شہریوں سمیت سینکڑوں معصوم لوگوں کی ہلاکت کے ذمےدار ہیں۔ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’حافظ سعید کو ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی حاصل ہے جو انہیں خارجی سطح پر ایک آلہ کار اور اندرونی سطح پر سیاسی تبدیلی لانے کے لئے استعمال کرتی ہے‘‘۔
حکمراں جماعت، مسلم لیگ۔ن کے رہنما، سینٹر عبدالقیوم نے امریکی وزیر دفاع، جم میٹس کے دورے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں اس کو مثبت انداز میں دیکھا جا رہا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ جم میٹس سے مطالبہ کیا جائے گا کہ پاکستانی سرحد پر واقع ان افغان صوبوں میں حکومت کی عملداری کو یقینی بنایا جائے، سرحد کی نگرانی کے انتظامات کو بہتر بنانے میں پاکستان کی مدد کی جائے، افغانستان میں موجود ان دہشتگردوں کے خلاف کاروائی کی جائے جو پاکستان میں پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہیں اور افغانستان میں بھارت کے کردار پر پاکستان کے تحفظات کو سنجیدگی سے سنا جائے۔
حافظ سعید کی رہائی پر امریکی ردعمل کے بارے میں سینٹر قیوم کا کہنا تھا کہ یہ ایک عدالتی فیصلہ تھا اور حکومت نے ابھی اس بات کا فیصلہ نہیں کیا کہ وہ اس کیس کا تعاقب کرے گی گی یا نہیں۔ تاہم، وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں باسٹھ ایسی تنظیمیں ہیں جن پر حکومت کی نظریں ہیں، جن کے بینک اکائونٹ منجمد ہوچکے ہیں، انکے مدرسے سیل ہو چکے ہیں اور انکے رہنمائوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو چکا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ امریکہ کے دبائو میں نہیں کیا گیا بلکہ اس لئے کیا گیا، کیونکہ پاکستان خود انتہا پسندی سے متاثر ہوا ہے۔
حافظ سعید جماعت الدعوۃ اور فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کے سربراہ ہیں اور ان دونوں تنظیموں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی اور امریکہ، دہشت گرد تنظیمیں قرار دے چکے ہیں۔