سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے اب سے چالیس برس پہلے چین کے ساتھ ایک تاریخی سمجھوتے پر دستخط کیے جس کے نتیجے میں امریکہ اور چین کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوئے تھے۔ تاہم اُس کے بعد کی کئی دہائیوں کے دوران چین کی غیر معمولی اقتصادی ترقی اور گزشتہ برس امریکہ کی طرف سے چین پر تجارتی محصولات عائد کرنے کے بعد سے دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف خدشات محسوس کر رہے ہیں۔
سابق صدر کارٹر نے 1979 میں چین کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے کو دور رس قرار دیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ اُس وقت کے چینی لیڈر تنگ شیاؤ پنگ نے چینی عوام،دنیا، امریکہ اور خود میرے ساتھ جو وعدہ کیا تھا وہ کھلے پن اور اصلاحات کا وعدہ تھا اور اُنہوں نے چین کے اندر زبردست اصلاحات کیں۔ اُس سے پہلے چین میں آزاد کاروبار کا وجود ہی نہیں تھا۔ تاہم اُس کے بعد تجارت اور کاروبار کے حوالے سے چین بہت فعال اور کھلے معاشرے میں تبدیل ہو چکا ہے۔
سابق صدر کارٹر موجودہ صدر ٹرمپ کی چین پر محصولات عائد کرنے کی پالیسی سے اتفاق نہیں رکھتے اور وہ چین کی طرف سے گزشتہ برس ارجنٹائن میں ہونے والے G-20 سربراہ اجلاس کے موقع پر امریکہ کو دی جانے والی رعایتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چین نے دو یا تین چیزیں کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ اُس نے امریکہ سےسویابین خریدنے کے دو بڑے سودے کئے ہیں۔ اس کے علاوہ اُس نے امریکی کمپنیوں کی طرف سے چین میں سرمایہ کاری کا موقع فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے۔
سابق صدر جمی کارٹر نے مزید کہا کہ جب ہم چین کے ساتھ تعلقات جاری نہیں رکھتے تو دونوں ملکوں کو اس کا نقصان پہنچتا ہے۔ صرف ہمیں نہیں، صرف چین کو نہیں بلکہ اس سے امریکہ کو معاشی طور پر نقصان ہوتا ہے۔
جمی کارٹر کا کہنا ہے کہ وہ چین کے ساتھ سٹریٹجک تعلقات شدید طور پر متاثر ہوتے ہوئے محسوس کر رہے ہیں جس کی 1979 کے بعد سے کوئی نظیر ملتی۔ اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ اور چین دنیا کی دو بڑی طاقتیں ہیں اور صدر ٹرمپ کی طرف سے چین پر تجارتی محصولات عائد کرنے کی پالیسی سے مستقبل کے حوالے سے دو طرفہ تعلقات کے تناظر میں شدید خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
تاہم چینی اُمور کے ماہر اور مرکز برائے سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے تجزیہ کار کرسٹوفر جانسن کہتے ہیں کہ جب صدر ٹرمپ نے ٹرانس پیسفک شراکت یعنی ٹی پی پی سے نکل جانےکا فیصلہ کیا تو اُنہوں نے سخت غلطی کی۔ اُن کا کہنا ہے، ’’بنیادی طور پر ہمیں چین کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے جو بھی دو طرفہ، اقتصادی اور تجارتی چیلنج درپیش ہیں، اُن کا حل ٹی پی پی میں موجود تھا۔ خاص طور پر سرکاری کمپنیوں کو حکومت کی طرف سے سبسڈی دینے، ٹکنالوجی کی منتقلی پر زور دینے اور دانشورانہ حقوق جیسے معاملات کا حل اس شراکت میں موجود تھا۔ ‘‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ اس معاہدے پر متعدد دیگر ممالک نے بھی دستخط کئے تھے اور وہ سب چین کے ساتھ معمول کے تجارتی تعلقات جاری رکھے ہوئے ہیں اور چین اُن سب کے خدشات دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
جانسن مزید کہتے ہیں کہ امریکہ اور چین کے تعلقات جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے سلسلے میں بھی اہمیت رکھتے ہیں۔