بانی پاکستان کی اکلوتی بیٹی دینا واڈیا کی آخری رسوم جمعہ کے روز نیویارک میں ادا کر دی گئیں۔ وہ گزشتہ جمعرات کے روز 98 برس کے عمر میں انتقال کر گئی تھیں۔
محمد علی جناح کے انتقال کے بعد اُن کی بہن محترمہ فاطمہ جناح 9 جولائی، 1967 کو کراچی میں انتقال کر گئی تھیں۔ اُن کے بعد قائد اعظم کے خاندان کی واحد وارث اُن کی بیٹی دینا تھیں۔ اُن کے رخصت ہونے کے بعد قائد اعظم سے جڑی آخری نشانی بھی رخصت ہو گئی ہے۔
دینا نے قائد اعظم کی مخالفت کے باوجود 17 برس کی عمر میں ممبئی کے ایک پارسی شخص نیول واڈیا سے شادی کر لی تھی جس کے بعد قائد اعظم سے اُن کے تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔ تاہم 1939 میں جب اُنہوں نے ممبئی میں واقع اپنا عالیشان گھر اپنی بہن فاطمہ جناح کے نام کیا تو اپنی بیٹی کیلئے بھی حبیب بینک میں دو لاکھ روپے جمع کرا کر زندگی بھر کیلئے ماہانہ آمدنی کا انتظام کر دیا تھا۔
1947 میں بٹوارے کے بعد فاطمہ جناح اپنے بھائی کے ہمراہ پاکستان چلی آئیں لیکن دینا نے بھارت میں ہی رہنے کو ترجیح دی۔ بعد میں اپنے شوہر سے طلاق کے بعد دینا نیویارک منتقل ہو گئیں۔ تاہم وہ لندن اور ممبئی آتی جاتی رہیں۔
بھارتی حکومت نے بٹوارے کے بعد ممبئی میں قائد اعظم کے گھر کو متروک جائیداد قرار دے دیا اور یو ں یہ بھارتی حکومت کے قبضے میں چلا گیا۔ لیکن دینا نے بھارتی عدالت میں وراثت کا مقدمہ دائر کرتے ہوئے یہ گھر اُن کے حوالے کرنے کی درخواست کی تاکہ وہ اُس گھر میں رہ سکیں جہاں اُنہوں نے اپنے والد کے ساتھ بچپن گزارا تھا۔ تاہم عدالت نے اُن کی درخواست یہ کہ کر قبول نہ کی کہ اس جائیداد پر قانونی طور پر صرف فاطمہ جناح ہی دعویٰ کر سکتی تھیں کیونکہ قائد اعظم نے یہ اُن کے نام کر دی تھی۔ لیکن دینا کا کہنا تھا کہ اُن کے والد کی وصیت کا چونکہ اندراج نہیں کیا گیا تھا لہذا اس پر قانونی طور پر عملدرآمد نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم عدالت نے دینا کا یہ استدلال قبول نہ کیا اور بھارتی حکومت نے قائد اعظم کے اس بنگلے کو فن و ثقافت کے جنوبی ایشیائی مرکز میں تبدیل کر دیا تھا۔
دینا واڈیا کے وکیل نے اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ محمد علی جناح کی واحد اولاد ہونے کی حیثیت سے اُن کا اس بنگلے پر پورا قانونی حق ہے جسے تسلیم کیا جانا چاہئیے۔
جب دینا کی کوششیں بارآور نہ ہوئیں تو اُنہوں نے بھارت کے سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ کو ایک خط لکھا جس میں اُنہوں نے کہا ، ’’میرے والد کے انتقال کے بعد 60 برس کا عرصہ بیت چکا ہے اور میں اب تک اُس گھر سے محروم ہوں جہاں میں پلی بڑھی اور اپنی شادی تک اپنے والد کے ساتھ وقت گزارا۔ لہذا یہ گھر مجھے لوٹا دیا جائے۔‘‘
تاہم دینا کی زندگی میں اُنہیں یہ گھر نہ مل سکا اور وہ اس کے انتظار میں دنیا سے رخصت ہو گئیں۔
پاکستان میں اگرچہ دینا واڈیا کو بہت کم لوگ جانتے ہیں لیکن اُن کے انتقال کے بعد بانی پاکستان کی آخری نشانی بھی رخصت ہو گئی ہے۔ پاکستان میں ماضی کی لگ بھگ تمام حکومتوں نے کبھی کوشش نہیں کی کہ اُنہیں پاکستان میں آ کر رہنے کیلئے قائل کیا جائے یا کم از کم بار بار پاکستان آنے کی دعوت دی جائے۔ یوں بانی پاکستان کی احسان مند قوم نے اُن کی واحد اولاد کو تقریباً نظر انداز کئے رکھا اور اُن کو وہ شناخت نہ دی جس کی وہ قوم کی بیٹی کی حیثیت سے حقدار تھیں۔