وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کو بیرونی سازش قرار دے کر مسترد کیے جانے کا معاملہ جہاں سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے تو وہیں اپوزیشن جماعتیں فوج اور خفیہ اداروں پر زور دے رہی ہیں کہ وہ اس حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کریں۔
اپوزیشن رہنماؤں نے عسکری اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر وہ بھی عمران خان کے الزامات سے متفق ہیں یا اُن کے پاس شواہد ہیں تو وہ سامنے لائیں۔
گزشتہ اتوار سے جاری اس سیاسی عدم استحکام اور تحریکِ عدم اعتماد کو بیرونی سازش قرار دینے کے الزامات پر پاکستانی فوج کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ لیکن ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق عمران خان کی حکومت کے خلاف کسی بیرونی سازش کے شواہد نہیں ملے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی سیاسی قیادت کی جانب سے فوج سے اس معاملے پر وضاحت کے لیے اصرار بڑھ رہا ہے جب کہ بعض حلقوں کے خیال میں اپوزیشن کا فوج سے وضاحت کا مطالبہ ہی غلط ہے۔
اپوزیشن فوج سے کیا مطالبہ کر رہی ہے؟
حزبِ اختلاف کا کہنا ہے کہ حکومت نے اپنے ذاتی فائدے کے لیے اپوزیشن پر ریاست کے ساتھ وفادار نہ ہونے کا الزام لگایا اور ڈپٹی اسپیکر نے اسے جواز بنا کر تحریکِ عدم اعتماد مسترد کر دی۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما شہباز شریف نے فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے ڈی جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسمبلی میں موجود 197 اراکین غدار ہیں تو کیا امریکی حکومت کے ساتھ مل کر حکومت گرانے کے شواہد موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس کی تفصیلات سامنے لائی جائیں تاکہ بیرونی سازش اور اپوزیشن کے کردار کی وضاحت ہو سکے۔
اس سے قبل پیپلز پارٹی کے رہنما آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے بھی اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنا مؤقف واضح کریں کیونکہ اُن کے بقول عمران خان نے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی فورم کو استعمال کیا اور آئین توڑا ہے۔
سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) آصف یاسین کا کہنا ہے کہ اپوزیشن عمران خان کی حکومت کو سلیکٹڈ کہتی ہے اور اب وہ فوج سے جواب سننا چاہتی ہے اُن کے مطابق یہ مطالبہ دوغلے پن پر مبنی ہے۔
کیا بیرونی سازش کے شواہد ہیں؟
امریکہ اور اپوزیشن کی ساز باز سے حکومت گرانے کے دعوؤں میں کتنی صداقت ہے یہی وہ سوال ہےجس کے جواب کے سبھی منتظر ہیں۔
سما ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی اور اینکر ندیم ملک کے مطابق انہوں نے اعلیٰ سرکاری اہلکار سے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں عسکری حکام کی بریفنگ کے بار ے میں پوچھا۔
ندیم ملک کے مطابق تحریری جواب میں اعلیٰ سرکاری اہلکار نے بتایا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں بیرونی سازش یا دھمکی کا ذکر نہیں ہے۔
27 مارچ کے اپنے جلسے میں بیرونی دھمکی اور سازش کے انکشاف کے بعد عمران خان نے 31 مارچ کو نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس بلایا تھا۔
اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ یہ مراسلہ ایک ملک کے سینئر عہدیدار اور اس ملک میں تعینات پاکستانی سفیر کے درمیان رسمی ملاقات میں ہونے والی بات چیت پر مبنی تھا جسے باضابطہ طور پر سفیر نے وزارتِ خارجہ تک پہنچایا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اعلامیے کے مطابق ملاقات میں غیر ملکی عہدیدار نے ’غیر سفارتی‘ زبان استعمال کی اور یہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں ’کھلی مداخلت‘ ہے جو ناقابلِ قبول ہے۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق پاکستان سفارتی اُصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے متعلقہ ملک کو ایک ٹھوس سفارتی ردِعمل دے گا۔
صحافی ندیم ملک کے مطابق سرکاری اہلکار سے پوچھے گئے سوال کے تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ ذمہ داران نے قومی سلامتی کمیٹی کو واضح طور پر بتایا کہ انہیں کسی بیرونی سازش، دھمکی کے ثبوت نہیں ملے اور نہ ہی اندرونی معاملات میں مداخلت، روابط اور پاکستان کے خلاف سازش کے شواہد سامنے آئے ہیں۔
دوسری جانب برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی ایک رپورٹ کے مطابق اعلٰی سرکاری اہل کار نے تصدیق کی ہے کہ پاکستان کے حساس اداروں کو عمران خان کی حکومت کے خلاف کسی بیرونی سازش کے شواہد نہیں ملے۔
میٹنگ کے نوٹس سامنے لانے اور فوج سے جواب کا مطالبہ
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ کے بعد جاری اعلامیے اور وزیرِ اعظم عمران خان کے بیانات میں فرق ہے ایسے میں یا تو سیکیورٹی کمیٹی کے منٹس کو سامنے لایا جائے اور یا پھر عسکری حکام حکومتی بیانیے کی توثیق کریں۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بحیثیت سابق سیکریٹری دفاع شریک رہنے والے لیفٹننٹ جنرل (ر) آصف یاسین کا کہنا ہے کہ یہ ایک حساس فورم ہے جو سول اور ملٹری کی اعلیٰ ترین قیادت پر مشتمل ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ اجلاس کے منٹس عام نہیں کیے جا سکتے لیکن اگر کبھی ضرورت پڑے تو انہیں پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی کمیٹی یا پھر چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے رکھا جا سکتا ہے۔
اس معاملے پر فوج اب تک خاموش کیوں ہے کہ اس سوال کے جواب میں سابق سیکریٹری دفاع نے کہا کہ یہ سویلین حکومت کا پلیٹ فارم ہے اس لیے فوج کا جواب دینا صحیح نہیں ہے اور فوج صرف میٹنگ منٹس کی تصدیق یا تردید کر سکتی ہے۔
فوج سے وضاحت طلب کرنے کے معاملے پر آصف یاسین نے اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے دوغلا پن قرار دیا۔
'سازش ہے تو حکومت تحقیقات کرے'
عمران خان کے بقول اُن کی آزاد خارجہ پالیسی سے امریکہ نالاں تھا اور اسی لیے امریکہ اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے حکومت گرانے کی سازش میں ملوث ہے۔ امریکہ نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
پاکستان میں وزیرِاعظم کی سربراہی میں اعلیٰ عسکری اور سویلین قیادت پر مشتمل نیشنل سیکیورٹی کمیٹی ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں قومی سلامتی سے متعلق اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
مبصرین کے خیال میں اگر واقعی کوئی غیر ملکی سازش ہوئی ہے تو اس کا ذکر اعلامیے میں ہونا چاہیے اور حکومت کو اس سلسلے میں تحقیقات کروانی چاہیے۔
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت نےاپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لیے سفیر کے مراسلے کو بیرونی سازش قرار دیا اور اسی کو استعمال کرتے نہ صرف اسمبلیاں تحلیل کر دیں بلکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر دوسری طرف موڑ دی ہے۔
پاکستان کے سابق سفارت کار عبدالباسط کے مطابق بیرونی سازش ایک سنگین الزام ہے اور اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ اپنے وی لاگ میں انہوں نے کہا کہ صرف احتجاج ریکارڈ کروا کر یہ معاملہ ختم نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہا کہ غداری کے الزام کے ساتھ حزبِ اختلاف الیکشن میں کیسے جا سکتی ہے۔
حکومت نے تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ تحریکِ انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے مقامی میڈیا میں سازش کی تحقیقات نہ کروانے کے بارے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے اور اپوزیشن کو چاہیے اس معاملے کو ختم کرتے ہوئے الیکشن کی تیاری کرے۔
لیفٹننٹ جنرل (ر) آصف یاسین کا کہنا ہے کہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر ملنے والی اطلاعات کے ثبوت کبھی نہیں ملتے اور کسی بھی کمیشن کے لیے مبینہ سازش کی تحقیقات کرنا بہت مشکل ہے۔