اردن کی ملکہ رانیا نے بدھ کو امریکی ٹیلی وژن نیٹ ورک CNN پر نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں، اسرائیل کی جانب سے غزہ بمباری میں فلسطینی شہریوں کی ہلاکت کی مذمت نہ کرنے پرمغربی رہنماؤں پر "کھلےدوہرے معیار" کے ارتکاب کا الزام عائد کیاہے۔
انہوں نے سی این این کی کرسٹیئن امان پور کو بتایا۔"اردن سمیت مڈل ایسٹ کے ارد گرد کے لوگ، اس تباہی پر سامنےآنے والے عالمی رد عمل پر ششدر اور مایوس ہیں۔ پچھلے دو ہفتوں میں، ہم نے دنیا میں ایک واضح دوہرا معیار دیکھا ہے،"
ملکہ رانیا نے جو کویت میں پیدا ہوئی تھیں اور جن کے والدین فلسطینی ہیں مغربی ممالک کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کی مخالفت کرنے پر تنقید کی اور کہا کہ ان کی خاموشی سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے حملوں میں "شریک" ہیں۔
انہوں نے انٹرویو میں کہا،"جب 7 اکتوبر کو حملہ ہوا، دنیا فوری طور پر اور واضح طور پر اسرائیل اور اپنے دفاع کے اس کے حق کے ساتھ کھڑی ہوئی اور اس حملے کی مذمت کی۔"
انہوں نے یہ بات حماس کے عسکریت پسندوں کے ان حملوں کے پس منظر میں کہی جب اسرائیل میں 1,400 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے، اوراسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ 220 سے زیادہ دیگر لوگوں کو یرغمال بنا لیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا،"لیکن جو کچھ ہم پچھلے دو ہفتوں سے دیکھ رہے ہیں، ہم دنیا میں خاموشی دیکھ رہے ہیں۔"
اسرائیل نے فلسطینی سرزمین پر مسلسل فضائی حملوں کے ذریعہ حماس کوجواب دیا ہے جن میں غزہ کی حماس کے زیرانتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ نو ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں، ان میں زیادہ تر عام شہری اور بہت سے بچے ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس نے غزہ کے 24 لاکھ باشندوں کو بھی پر مکمل محاصرہ میں لے رکھا ہے جو ایک "تباہ کن" انسانی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔
'خاموشی بہرا کر دینے والی ہے'
"کیا ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ کسی خاندان، پورے خاندان کو بندوق کی نوک پر مارنا غلط ہے، لیکن کیاانہیں گولہ باری میں ہلاک کرنا ٹھیک ہے؟" ملکہ رانیہ نے پوچھا۔
ملکہ رانیہ نے مغرب کی طرف سے جنگ بندی کی حمایت سے انکار کے بارے میں کہا کہ "خاموشی بہرا کردینے والی ہے اور ہمارے خطے میں بہت سے لوگوں کے لیے، یہ مغربی دنیا کو ، اسرائیل کے لیےان کی حمایت اور اسرائیل کو دیے جانے والے"کور"کے ذریعے اس (غزہ کی صورتحال)میں ملوث کرتی ہے"۔
خیال رہے کہ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں نے اب تک جنگ بندی کے مطالبات کو مسترد کیا ہے۔
امریکہ نے گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے اس مسودے کو ویٹو کر دیا تھا جس میں اسرائیل حماس تنازع میں "انسانی ہمدردی کی بنیاد پر وقفے" کا مطالبہ کیا گیا تھا، یہ کہتے ہوئے کہ یہ متن اسرائیل کےاس کے اپنے دفاع کے حق کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔
SEE ALSO: امریکہ نےاسرائیل اورغزہ کے بارے میں سلامتی کونسل کی قرار داد ویٹو کردیاقوام متحدہ کے سربراہ انٹونیو گوتیرس نے منگل کو غزہ میں "بے پناہ مصائب" کی بات کی، اور کہا کہ "بین الاقوامی قانون کی واضح خلاف ورزیاں" ہوئی ہیں۔
گوتیرس نے اسرائیلی سفارت کاروں کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا جب انہوں نے کہا کہ حماس کا حملہ "خلا میں نہیں ہواتھا"۔
SEE ALSO: غزہ کے مکین مشکلات کا شکار، اسرائیل اور حماس میں جنگ بندی کے مطالبوں میں اضافہان کی اس بات کو ملکہ رانیہ نے شیئر کیا، انہوں نے سی این این کو بتایا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ یہ تنازعہ 7 اکتوبر کو شروع ہوا تھا۔
انہوں نے کہا، "یہ ایک 75 سال پرانی کہانی ہے،فلسطینی عوام کی بڑے پیمانے پر ا موات اور بے گھر ہونے کی کہانی۔ یہ ایک نسل پرست حکومت کے تحت قبضے کی کہانی ہے۔"
جب اس دعویٰ کے بارے میں رانیہ سے سوال کیا گیاتو انہوں نےانسانی حقوق کی ان بین الاقوامی تنظیموں کا حوالہ دیا جنہوں نےماضی میں اسرائیل پر نسل پرستی کا الزام لگایا تھا۔
اسرائیل نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی 2022 کی اس رپورٹ کےجواب میں جس میں کہا گیا تھا کہ وہ نسل پرستی کا مرتکب ہو رہا ہے،ایمنسٹی کو ایک "بنیاد پرست تنظیم" سے تعبیر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل "بین الاقوامی قانون کی پابند ایک جمہوریت" ہے۔
یہ رپورٹ اے ایف پی کی معلومات پر مبنی ہے۔