کمیٹی ٹو پراٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے ایشیا پروگرام کے کوآرڈینیٹر، باب ڈئیٹز نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومتِ پاکستان صحافی سلیم شہزاد کےموت کی تحقیقات کرائے اور اُس کے ذمہ داروں کو منظرِ عام پر لائے۔
اِس بارے میں نیو یارک سے ٹیلی فون پر’ وائس آف امریکہ‘ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ پریس فریڈم کے عالمی دِن کے موقعے پر کمیٹی کے وفد نے صدر آصف علی زرداری اور وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک سے ملاقات کی تھی، اور اُنھوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ پاکستان میں صحافیوں کو ہلاک کیے جانے کے معاملات سے نمٹنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔
باب ڈئیٹز نے بتایا کہ گذشتہ سال پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کے لحاظ سے بدترین سال تھا، جِس کے دوران کم از کم آٹھ صحافیوں کو باقاعدہ ہدف بنا کر مارا گیا۔اُن کے الفاظ میں: ’ اِس سال ہدف بنا کر ہلاک کرنے کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔ ہم زرداری حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ وقت آگیا ہے کہ وہ اِس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اپنے وعدے کے مطابق اقدامات کرے۔‘
باب ڈئیٹز نے کہا کہ اِس وقت یہ کہنا کہ اِس قتل کا ذمہ دار کون ہے ’قبل از وقت ہوگا‘۔ اُن کے بقول، ضرورت اِس بات کی ہے کہ حکومت اُسی طرح سلیم شہزاد کی موت کی تحقیقات کے لیے وسائل وقف کرے جس طرح 2002ء میں اُس نے ڈینئل پرل کی تحقیقات کے لیے کیے تھے۔
اُن کا جواب نفی میں تھا، جب اُن سے سوال کیا گیا کہ کیا اُنھیں امید کی کوئی کرن نظر آتی ہے۔ اُن کے الفاظ میں: ’میں سمجھتا ہوں کہ صورتِ حال اور بدتر ہوگی کیونکہ پاکستان میں سیاسی کشیدگیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انٹیلی جنس، فوج، سویلین حکومت اور مجھے کوئی ایسا انتظام ہوتا ہوا نظر نہیں آتا جن سے یہ مسائل حل ہوں۔‘
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے جنرل سکریٹری امین یوسف نے اِسے ’افسوس ناک ‘ قرار دیا اور وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سلیم شہزاد کو اسلام آباد سے اغوا کیا گیا، ’ اور ہم نے جب اُن کا پتا لگانے کے لیے حکومت سے رابطہ کیا، اطلاع یہ ملی کہ اُن کی کار مل گئی ہے۔ اُس کی ایف آئی آر درج کرائی تو پتا چلا کہ اُسی گاڑی میں ایک باڈی بھی ہے جو شناخت نہیں ہو رہی ہے۔ بعد میں، شناخت ہوگئی اور وہ سلیم شہزاد ہی تھے۔‘
پی ایف یو جے نے حکومت سے اعلیٰ سطحی تفتیش کا مطالبہ کیا ہے اور اُس میں ہم نے کہا ہے کہ اس میں جو لوگ بھی ملوث ہیں اُن کو سامنے لایا جائے، اور اِس سلسلے میں ہر سطح پر آواز اٹھایا جائے گی۔اُنھوں نے بتایا کہ پی ایف یو جے نے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
امین یوسف نے کہا کہ کراچی سے خیبر پختون خواہ تک اور بلوچستان میں لاپتا اور قتل ہونے والے صحافیوں کےقاتلوں کا آج تک پتا نہیں چلا، جب کہ زیادہ تر معاملوں میں قتل کرنے والے لوگ یا عناصر گرفتار ہی نہیں ہوئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ، ’یہ ایک عجیب و غریب صورتِ حال پیدا ہو رہی ہے۔‘
پی ایف یو جے کے سابق جنرل سکریٹری شمس الاسلام کا کہنا تھا کہ یونین نے نہ صرف سلیم شہزاد کی واقعے کا نوٹس لیا ہے بلکہ ملک گیر سطح پر مظاہرے کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے: