پاکستان کی معاشی صورت حال اور روپے کی قیمت گرنے کے سبب عوام میں پریشانی پائی جاتی ہے۔ تاہم، حکومت کا موقف ہے کہ وہ معاشی حالات بہتر بنانے کے لئے ضروری اقدامات کر رہی ہے۔
ماہرین معاشیات کے درمیان حکومت کے اس موقف کے بارے میں ملے جلے تاثرات پائے جاتے ہیں۔
'وائس آف امریکہ" کے پروگرام 'جہاں رنگ' میں دو ماہرین معاشیات؛ پاکستان کے ڈاکٹر شاہد صدیقی اور پیرس یونیورسٹی کے ڈاکٹر عطا محمد نے گفتگو کی۔
ڈاکٹر شاہد صدیقی کا کہنا تھا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت جنوری کا انتظار کر رہی ہے، جبکہ انکے خیال میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے پا جائیں گے اور اس سے قرضوں کی قسطیں ملنا شروع ہو جائیں گی۔ اور جب وہاں سے حکومت کی پالیسیوں کی توثیق ہو جائے گی، تو پھر دروازے کھل جائیں گے اور پاکستان بین الااقوامی منڈیوں میں بونڈ جاری کر سکے گا۔ عالمی بنک اور ایشائی ترقیاتی بنک کے پاس جاسکے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر پاکستان میں وہی کچھ ہو رہا ہے جو پچھلے 30 برسوں میں ہوتا رہا ہے، اور یہی سبب ہے کہ خطے میں ہماری شرح نمو سب سے کم رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے 100 دن کا جو پروگرام دیا تھا، اس میں یہ بات بالکل درست تھی کہ ہم اپنے پہلے سو دنوں میں عدل پر مبنی ٹیکس پالیسی نافذ کریں گے۔ آئی ایم ایف بھی 1988ء سے یہی کہتا آرہا ہے۔ اور تینوں بڑی پارٹیاں جو ابتک اقتدار میں رہی ہیں ان تینوں کے منشور میں یہ بات موجود ہے۔
لیکن، اُنھوں نے کہا کہ ''نہ تو بقیہ دو پارٹیوں نے اس سلسلے میں کچھ کیا اور یہ کہ سو دن گزر جانے کے باوجود نئی حکومت نے بھی اس ضمن میں کچھ نہیں کیا۔ اور ایسا لگتا ہے کہ ماضی کی طرح آج بھی اسکے لئے کوئی تیار نہیں ہے۔ اور اسکے بغیر اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر نہیں آتی''۔
انہوں کہا کہ صرف یہ ہوگا کہPrivatization کی صورت میں اثاثے فروخت ہونگے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ اگر ہم بچت کے لئے ملک میں سرمایہ کاری کے لئےStructural reforms نہیں لاتے، 'فلائٹ آف کیپٹل' کو نہیں روکتے اور معیشت کوDocument نہیں کرتے تو بہتری کی جانب تبدیلی کی کوشش نہیں کی جا سکتی۔
ڈاکٹر عطا محمد کا کہنا تھا کہ پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج افراط زر کا ہے۔ آئندہ دنوں میں اس کے بڑھنے کے امکانات ہیں۔ دوسرا چیلنج عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی شرح سود کا ہے اور تیسرا بڑا چیلنج درآمدات اور برآمدات میں عدم توازن کا۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ان اسباب کی بنا پر ملک کی شرح نمو میں تھوڑا ہی سا اضافہ ہو سکے گا اور بعض عالمی مالیاتی اداروں نے بھی اس سلسلے میں اپنی اپنی پیشگوئیاں کی ہیں۔
اس سلسلے میں حکومت کا موقف جاننے کے لئے حکومتی نمائندوں سے رابطے کی کوشش کی گئی۔ لیکن۔ کوئی بھی دستیاب نہیں تھا۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنئیے:
Your browser doesn’t support HTML5