کراچی میں موسم گرماء کے آغاز کے ساتھ ہی بجلی کی طلب و رسد میں فرق بڑھنے سے بحران نے شدت اختیار کر لی ہے۔ شہر بھر میں کئی کئی گھنٹے ہونے والی لوڈ شیڈنگ پر عوام کے الیکڑک کے خلاف سڑکوں پر آ گئے ہیں۔ انھوں نے الزام عائد کیا ہے کہ کے الیکڑک نے معاہدے کے مطابق بجلی کی پیدوار بڑھانے کے لئے سرمایہ کاری نہیں کی اور جعلی بلوں کے ذریعہ لوٹ گھسوٹ میں مصروف ہے اور سالانہ 35 ارب روپے منافع کما رہا ہے، جب کہ شہری بجلی کے بدترین بحران کا شکار ہیں۔
دوسری جانب الیکڑک کا دعوی ہے کہ وہ گزشتہ 9 برسوں میں ایک ارب 70 روپے کروڑ کی سرمایہ کاری کرچکا ہے۔
گرم موسم کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی شہر کراچی میں بجلی کی طلب بڑھ کر 2900 تا تین ہزار میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے۔ کے الیکڑک کا دعوی ہے کہ وہ 25 تا 26سو میگاواٹ بجلی فراہم کررہے ہیں۔ اس طرح شہر کو تقریبا پانچ تا چھ سو میگاواٹ بجلی کی قلت کا سامنا ہے۔
بجلی کے بحران پر عوامی تحریک چلانے والے مقامی راہنماء حافظ نعیم الرحمن کا کہنا ہے کہ کے الیکڑک نے معاہدے کے مطابق سسٹم میں سرمایہ کاری نہیں جس کی وجہ سے بجلی کا بحران کھڑا ہوا۔
حافظ نعیم الرحمن کا کہنا ہے کہ ’ کے الیکڑک معاہدے کے تحت 360 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی پابند تھی لیکن انھوں نے نہیں کی۔ یہ پابند ہیں کہ اپنے تمام پلانٹ چلائیں لیکن وہ آئل والے پلانٹ نہیں چلاتے۔ ان سے طے ہوا تھا کہ ملازمین کو رکھیں گے اور بل میں 15 پیسے فی یونٹ چارج کریں گے انھوں نے سارے ملازمین تقریباً 7 ہزار سے نکال دیئے لیکن 15 پیسے فی یونٹ چارج کر رہے ہیں اور یہ پیسے واپس نہیں کر رہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ میٹر ریڈنگ کے پیسے اج بھی وصول کر رہے ہیں جبکہ میٹر کی قیمت وصول کر چکے ہیں۔ انھوں نے سسٹم میں اپ گریڈیشن کی ہوتی تو آج شہر لوڈ شیڈنگ فری ہوتا اور اب یہ آئل کے پلانٹ بند رکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ ہوا میں نمی کا تناسب بڑھتا ہے تو ان کے فیڈر ٹرپ کر جاتے ہیں۔ بارش ہوتی ہے تو فیڈر ٹرپ کر جاتے ہیں اور 35 سٹی گریڈ سے زیادہ گرمی ہو تو ان کا سسٹم بیٹھ جاتا ہے۔
حافظ نعیم الرحمن نے الزام عائد کیا کہ نیپرا نے ان پر جو بھی پابندی عائد کی وہ اس پر عمل نہیں کرتے، حکم امتناع حاصل کرلیتے ہیں۔ اپنی جانب سے کوئی کام نہیں کرتے۔ بل بڑھتے جا رہے ہیں۔ میٹر تیز چلتے ہیں۔ کوئی تیسری پارٹی نہیں جو میٹر کو چیک کر سکے۔ اتنی ساری خرابیوں کی موجودگی میں ان کو سبسڈری پوری مل رہی ہے بلکہ بڑھتی جارہی ہے۔ صارفین میں اضافہ نہیں ہو رہا لیکن ان کا منافع بڑھ رہا ہے۔ بجلی کی کھپت سن 2005 سے 2015 تک 93 ہزار ملین یونٹ بجلی کے لگ بھگ تھی، آج بھی وہی ہے لیکن ان کا منافع بڑھ کر 35 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اوور بلنگ اور فیول ایڈجسمنٹ چارجز اور مختلف مدعات میں پیسے وصول کئے جارہے ہیں۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ ان سے اب یہ چیزیں واپس لے لینی چاہئیں۔ ان پر مقدمہ چلانا چاہئے اور ان کو پکڑنا چاہئے کیونکہ انھوں نے کرپشن کی ہے اور اہل کراچی کو سہولت فراہم نہیں کی۔
کے الیکٹرک کی ڈائریکٹر کمیونیشن سعدیہ ٹاٹا اعتراف کرتی ہیں کہ چھ سو میگاواٹ بجلی کی کمی پورا کرنے کے لئے شہر کو دو زونز میں تقسیم کر کے جن علاقوں میں بجلی چوری کے واقعات زیادہ ہیں وہاں لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بجلی کا حالیہ بحران بن قاسم پاور پلانٹ میں فنی خرابی کے باعث پیدا ہوا ہے جس کی وجہ سے مزید دو سو میگاواٹ بجلی کی قلت پیدا ہوئی۔
سعدیہ ٹاٹا کہتی ہیں کہ اس وقت شہر میں معمول لوڈ شیڈنگ کے علاوہ مثتثنی علاقوں میں بھی تین گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کرنا پڑ رہی ہے۔ لیکن بھی صنعتی علاقے اور واٹر بورڈ کے بڑے پمپنگ اسٹیشنوں پر لوڈ شیڈنگ نہیں کی جاتی۔ نیشنل گریڈ سے چھ ساڑھے چھ سو میگاواٹ بجلی ملتی ہے باقی 19 سو سے ۲ ہزار میگاواٹ کے الیکڑک پیدا کر رہا ہے۔2009 سے اب تک ایک ارب 70 کروڑ ڈالر کی کراچی میں سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ یہ سرمایہ کاری جنریشن، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن تینوں شعبوں میں کی گئی ہے۔ کے الیکڑک نے ایک ہزار 57 میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل کی ہے۔ 2009 میں 8 تا ساڑھے اٹھ سو فیڈر تھے جو آج بڑھ کر ساڑھے سولہ سو کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ پی ایم ٹی 13 ہزار تھیں جو اب 26 ہزار کے قریب پہنچ چکی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ائریل ماؤنڈنگ کیبلز کا پروجیکٹ شروع کیا ہےجس کے تحت 5 ہزار سے زائد پی ایم ٹی پر یہ کیبلنگ کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے سب سے بڑے چیلنج یعنی بجلی چوری کا ان علاقوں میں تدارک ہو گیا ہے اور کنڈوں کی وجہ سے آنے والی ٹرپنگ کی شکایات کا بھی کافی حد تک ازالہ ہو گیا ہے۔
کے الیکڑک کی ترجمان کے مطابق 2200 میگاواٹ بجلی موجود ہے جن میں سے 1100 میگاواٹ اس کا اپنا، 650 میگاواٹ نجی کمپنیوں سے اور بقیہ دیگر پرائیویٹ سیکٹر سے حاصل کردہ ہے۔ جبکہ سوئی سدرن کا کہنا ہے کہ کے الیکڑک اور سوئی سدرن کے درمیان گیس کی فراہمی کا سرے سے کوئی معاہدہ ہی نہیں۔ 1970 کے ایک معاہدے کے تحت صرف 10 ملین کیوبک فٹ گیس کی فراہمی ان کی ذمہ داری ہے لیکن وہ 80 ملین کیوبک فٹ گیس فراہم کر رہے ہیں۔
نیپرا اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ کے الیکڑک کے پاس فرنس ائل، ہائی اسپیڈ ڈیزل اور ایل پی جی کے پلانٹس بھی موجود ہیں لیکن اس سے بجلی پیدا نہیں کی جا رہی جس کی وجہ سے بجلی کی کمی ہے۔ کے الیکڑک کا موقف ہے کہ فرنس آئل، ایل پی جی اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کا سرکاری نرخ متعین نہیں ہے۔ اگر حکومت ان کے نرخ مقر کردے تو اس ذریعہ سے بھی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔
دوسری جانب کے الیکڑک اور سوئی سدرن کے درمیان واجبات کی ادائیگی کا تنازعہ بھی موجود ہے۔ سوئی سدرن کا دعوی ہے کہ کے الیکڑک پر اس کے 80 ارب روپے کے واجبات ہیں جو ادا نہیں ہوئے جبکہ کے الیکڑک کا کہنا ہے کہ واجبات صرف 13.5 ارب روپے ہیں۔ اس مسئلے پر گزشتہ دنوں وزیر اعلی ہاؤس میں منعقدہ ایک اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایک تیسرے فریق سے آڈٹ کرایا جائے تاکہ یہ تنازعہ ختم ہو لیکن دونوں ہی اداروں نے اس کے لیے تعاون نہیں کیا اور مسئلہ وہیں وہیں دھرا ہے۔
سوئی سدرن کا ایک موقف یہ بھی ہے کہ ملک میں گیس کے ذخائر میں بتدریج کمی کے باعث سوئی گیس کمپنیوں کے پاس گیس کی قلت ہے اور مستقبل میں اس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ سوئی گیس کے ایک حالیہ سرکاری ٹوئٹ اکاونٹ میں کے الیکڑک کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے تمام واجبات ادا کرے، یعنی سوئی سدرن لگ بھگ 80 ارب روپے کی فوری ادائیگی کا مطالبہ کر رہا ہے۔دوسری جانب کے الیکڑک کی جانب سے مطلوبہ سرمایہ کاری نہ کیے جانے کی وجہ سے بجلی کی کمی پوری نہیں ہو رہی، جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہو رہے ہیں اور شہریوں نے ایک بار پھر خود کو سنہ 2000 کے دور میں محسوس کرنا شروع کر دیا ہے جب شہر بدترین لوڈ شیڈنگ کی زد میں تھا۔