کراچی میں عید کے چاند کا اعلان ہوتے ہی بازاروں میں خریداروں کا رش انتہائی حد تک بڑھ گیا ہے ۔چاند رات ہونے کے سبب شہر کی تمام مارکیٹوں میں بھیڑ کا یہ عالم ہے کہ پارکنگ میں تل دھرنے کو جگہ نہیں۔ شاپنگ سینٹرز کے آس پاس کی تمام گلیاں، سڑکیں اور محلے گاڑیوں سے کھچاکھچ بھرے ہیں۔ ٹریفک کا نظام تتربتر ہے اور ایسا لگتا ہے کہ گویا سارے شہری اس وقت گھروں سے نکل کربازاروں میں سماں گئے ہیں۔
حیدری کے ایک دکاندار عبدالغنی نے وائس آف امریکہ سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا " ابھی تو کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔ابھی بجا ہی کیا ہے۔ نوبجے تو لوگوں کی آمد شروع ہوئی ہے ۔۔جیسے جیسے' رات جواں ہوگئی'لوگوں کا انبار لگ جائے گا۔۔صبح فجر تک لوگوں کی آمد جاری رہے گی۔"
ہارون شاپنگ سینٹر کے ایک اور دکاندار سید شاہد علی کا کہنا ہے "کراچی کے خراب حالات کے باوجود لوگوں کی جانب سے عید کی شاپنگ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ جس دن ہڑتال ہوئی اور بازار بند ہوئے توہوئے مگر اگلے دن لوگوں نے اس سے زیادہ خریداری کی۔ "انہوں نے مزید بتایا کہ "خواتین کی جانب سے ریڈی میڈ سوٹس کی خریداری میں اضافے کا رجحان ہے لہذا سب سے زیادہ بھیڑ ریڈی میڈ گارمنٹس کی دکانوں پر ہی ہے۔ اس کے بعد آرٹی فیشنل جیولری شاپس اور آخر میں بیوٹی پارلرز کا نمبر آتا ہے۔"
عیدالفطر کے موقع پر حکومت کی جانب سے سیکورٹی کے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں لیکن زیادہ تر لوگ اس کی پرواہ نہیں کررہے یہی وجہ ہے کہ نہ تو مارکیٹوں میں رش کم ہوا اور نہ ہی رونق میں کوئی کمی آئی۔ بازارہوں یا گلی محلوں کی دکانیں بچے ، بڑے سب نئی نئی چیزیں خریدنے میں مگن ہیں۔ کپڑوں، جوتوں اور دیگر شاپس پردکانداروں اور ان کے ملازمین کے پاس نہ ریٹ گھٹانے کا وقت ہے نہ طویل سودی بازی وہ کرنا چاہتے ہیں۔ زیادہ تر دکانیں فکس ریٹ یا ایک دام کا لیبل لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ بارگینگ کرنے والے گاہکوں کو بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھ رہے۔
نصف رمضان سے بھی پہلے سے شہر کے بڑے بازار رات گئے تک کھلے ہیں۔ پھرمارکیٹوں سے منسلک پتھارے والوں کی تو جیسے چاندی ہوگئی ہے۔انہوں نے بھی ریٹ بڑھ دیئے ہیں۔ صدر، لیاقت آباد، حیدری، جامع کلاتھ ، طارق روڈ، پاپوش نگر ، بفرزون، واٹر پمپ ، کریم آباد، نصیر آباد اور دیگر کسی بھی علاقے میں چلے جایئے وہاں پتھارے والوں کی بن آئی ہے ۔ ان کے پاس بھی گاہکوں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ وہ خواہش کرتے ہیں کہ چاندرات زور آیا کرے۔
کراچی میں پتھاروں سے خریداری ایک رجحان ہے ۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ یہاں دکانوں کے مقابلے میں ہر چیز کم قیمت پر مل جاتی ہے۔ جبکہ وہ چیز دکان پر 50 فیصد تک زیادہ داموں پر ملتی ہے کیونکہ بڑی بڑی دکانوں کے مقابلے میں ان کے اخراجات کم ہیں۔
گزشتہ کچھ برسوں سے شہر میں ایک اور تبدیلی نظر آئی ہے۔ پہلے بیوٹی پارلر صرف خواتین کے لئے مخصوص تھے لیکن اب نہ صرف پوش علاقوں میں بلکہ متوسط علاقوں میں بھی مردوں کے پارلرز پر ”چاند رات کے لئے بکنگ جاری ہے“ کے بورڈبھی نصب نظر آنے لگے ہیں جو اس سے قبل ہر طبقے میں معیوب سمجھا جاتا تھا۔
شہر کے بیشتر بازاروں میں لڑکوں سے زیادہ لڑکیاں پرجوش نظر آتی ہیں کیونکہ ان کے لوازمات بہت ہیں اور پھر بہنوں، کزنز، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا آپس میں کمپی ٹیشن ۔۔اور پریشانی یہ ہے کہ ان جیسا سوٹ اور دیگر میچنگ کسی اور کے پاس بھی نہ ہو۔ لڑکے شاید اب تک اس طرح کے کمپی ٹیشن سے دور ہیں۔ میچنگ کی جیولری مل جائے تو چپل/سینڈل نہیں ملتی ۔ اسی لئے مارکیٹ میں اچھا سیل مین اسے تسلیم کیا جاتا ہے جس کے بارے میں سب کو پتہ ہو کہ ”گاہک آتا ہے اپنی پسند کی چیز لینے لیکن لے جاتا ہے سیل مین کی مرضی سے“۔
افطار کے بعد تو ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے سویا ہوا شہر ایک دم جاگ گیا ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ کدھر جانا ہے۔ شاید ان کے ذہنوں میں یہ مصرعہ بس گیا ہے کہ ”چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی“ گاڑیوں، موٹر سائیکلوں کے اس بے ہنگم میل رواں کو قابو میں رکھنے کے لئے پولیس کی ایک بڑی تعداد ناکام کوششوں میں مصروف ہے لیکن دہشت گردی اور خون خرابے کو روکنے کی کوششیں ضرور کی جا رہی ہیں۔
ہر بازار کے نزدیک پولیس کمپلین سیل میں بازار کی یونین کے عہدیدار بھی موجود ہیں جہاں سے ہر پانچ منٹ بعد ایک آواز آتی ہے ”جیب کتروں سے ہوشیار“۔ ان پولیس کیمپوں سے والدین سے بچھڑجانے والے بچوں کے بارے میں بھی اعلان کیا جاتا ہے اور امن و امان بھی قائم رکھنے میں مدد لی جاتی ہے۔
اس تمام صورتحال کے باوجود بے شمار لوگوں کو چاند رات کی شاپنگ کے مزے بھلائے نہیں بھولتے۔ کچھ لوگوں کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ خریداری اور بازار کے ہنگاموں کے بغیر چاندرات کا کیا مزا؟
بازارہوں یا گلی محلوں کی دکانیں بچے ، بڑے سب نئی نئی چیزیں خریدنے میں مگن ہیں۔ کپڑوں، جوتوں اور دیگر شاپس پردکانداروں اور ان کے ملازمین کے پاس نہ ریٹ گھٹانے کا وقت ہے نہ طویل سودی بازی وہ کرنا چاہتے ہیں۔