ہمدردی نہیں حقوق چاہئیں

ہمدردی نہیں حقوق چاہئیں

پاکستان میں معذور افراد کے لیے سرکاری محکموں میں دو فیصد کوٹہ مخصوص ہے ۔ لیکن عموماً انھیں معاشرے کا ایک بے کار حصہ سمجھ کر نظر انداز کردیا جا تا ہے ۔ معذوروں کی فلاحی تنظیم کے صدر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے لوگوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ اپنی معذوری کو مجبوری نہ سمجھیں ، گھر سے باہر نکلیں اور اقتصادی و سماجی سرگرمیوں کا حصہ بنیں۔

دنیا بھر کے معذور افراد کی طرح کراچی کا رہائشی محمد ندیم بھی اس امید کے ساتھ تین دسمبر کو معذوروں کا عالمی دن منا رہا ہے کہ اسے ہمدردی کے بجائے عام شہریوں کی طرح اپنے حقوق ایک دن ضرور ملیں گے ۔

محمد ندیم کراچی میں معذور افراد کی فلاح و بہبود کے ادارے سے بھی منسلک ہے جہاں وہ اپنے جیسے لوگوں کے لیے کام کرتا ہے اور ان کے ساتھ مل کر اپنے حقوق کے لیے آواز بھی اٹھاتا ہے۔ اس کا داہنا پیرپولیو سے متاثر ہے۔ وہ کامرس گریجویٹ ہے اور آٹو رکشہ چلانے کے ساتھ اوور ٹائم بھی کرتا ہے ۔

پچیس سالہ یہ پرعزم نوجوان بظاہر جسمانی طور پر تو معذور ہے لیکن ذہنی طور پر بہت مضبوط ہے ۔وہ اپنے گھر کا واحد کفیل ہے اور ماہانہ آٹھ ہزار تک کما لیتا ہے اور رکشہ اس لیے چلاتا ہے کہ اس کی معذوری کی وجہ سے کسی سرکاری یا نجی ادارے میں اس کے لیے جگہ نہیں ہے۔ محمد ندیم کا کہنا ہے ” میں نے جس جگہ بھی جاب کے لیے درخواست دی ، ایک ہی جواب ملا کہ آپ دفتر کیسے آئیں گے ، موومنٹ کیسے رکھیں گے، اگر دیر ہو گئی تو ۔ یہ وجوہات بتا کر مجھے وہاں سے رخصت کردیا جاتا ہے۔ “

محمد ندیم


محمد ندیم کا کہنا ہے کہ ہمیں معذور کہا جاتا ہے لیکن ہماری نظر میں معذور وہ ہے جو یہ سوچتا ہے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم جسمانی طور پر صحت مند لوگوں سے زیادہ بہتر کام کر سکتے ہیں۔

یہ مسائل صرف محمد ندیم کو ہی درپیش نہیں بلکہ پاکستان میں معذور افراد کو کم و بیش عموماً انہی مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ ڈس ایبل ویلفےئر ایسو سی ایشن کراچی میں جسمانی طور پر معذور افراد کی فلاح کے لیے کام کرتی ہے ۔ اس غیر سرکاری تنظیم نے معذوروں کے عالمی دن کے موقع پر کراچی میں ایک آگاہی واک کا اہتمام کیا تھا۔ اس تنظیم کے سربراہ جاوید رئیس سمیت ہر رکن کسی نہ کسی حوالے سے جسمانی معذوری کا شکار ہے۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق پاکستان میں معذور افراد آبادی کا 15 فیصد ہیں لیکن جاوید رئیس کہتے ہیں کہ یہ تعداد اس سے زیا دہ ہے کیوں کہ ملک میں غربت میں اضافہ ، سیلاب متاثرین کے لیے غذائی قلت جیسے مسائل ، زلزلے اور روڈ حادثات کے باعث جسمانی طور پر معذور افراد کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو آنے والے وقتوں میں یہ حکومت کے لیے یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہوگا۔

اقوام ِ متحدہ نے سال 2006 ء میں اکیسیویں صدی کے پہلے انسانی حقوق کا معاہدہ جسے یونائٹڈ نیشن کنونشن آن دی رائٹس آف ڈس ایبیلٹی کہا جاتا ہے کی منظوری دی۔ اسے2008ء میں نافذ کیا گیا اور رواں سال 5جولائی 2011ء کو پاکستان نے بھی اس کی توثیق کی ہے-

جاوید رئیس کہتے ہیں کہ اب یہ پاکستان پر لازم ہو گیا ہے کہ اس پر عمل درآمد کروائے اور دو سال کے اندر پاکستان کو اقوامِ متحدہ میں ایک رپورٹ بھی پیش کرنی ہے کہ اسے تسلیم کرنے کے بعد وہ اس پر کتنا عمل درآمد کر رہا ہے۔ معذوروں کے حوالے سے دنیا کا پہلا کنونشن ہے جسے 105 ممالک نے تسلیم کر لیا ہے اس لیے یہ معذور افراد کے حوالے سے ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔

جاوید رئیس

جاوید رئیس کی تنظیم معذور افراد کو اقتصادی و سماجی سرگرمیوں میں فعال رکھنے کے لیے مختلف پروجیکٹس پر کام کر رہی ہے۔ ان کی ایک ورک شاپ بھی ہے جہاں معذور افراد کے لیے تین پہیوں والی موٹر سائیکل بنائی جاتی ہے جس کی قیمت 75 ہزار تک ہوتی ہے۔ اس ورک شاپ میں کام کرنے والے تمام افراد معذور ہیں ۔ جاوید رئیس کہتے ہیں کہ وہ معذور افراد جو گھر سے باہر نہیں نکل سکتے اس بائیک کے ذریعے اپنے تمام کام باآسانی انجام دیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ڈی ڈبلو اے کے اسپورٹس کے بھی مختلف پراجیکٹس ہیں جن میں کرکٹ، باسکٹ بال اور سوئمنگ شامل ہے۔

پاکستان میں معذور افراد کے لیے سرکاری محکموں میں دو فیصد کوٹہ مخصوص ہے ۔ لیکن عموماً انھیں معاشرے کا ایک بے کار حصہ سمجھ کر نظر انداز کردیا جا تا ہے ۔ معذوروں کی فلاحی تنظیم کے صدر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے لوگوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ اپنی معذوری کو مجبوری نہ سمجھیں ، گھر سے باہر نکلیں اور اقتصادی و سماجی سرگرمیوں کا حصہ بنیں۔

جاوید رئیس کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں انھیں اپنے منشور میں جگہ دیں جب کہ حکومت قومی اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی طرح ان کے لیے بھی مخصوص نشستیں رکھیں کیوں کہ جب ہمارا نمائندہ اسمبلی میں ہوگا تو ہمارے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔

محکمہ خصوصی تعلیم کے ڈائریکٹر جنرل مصطفین کاظمین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حالیہ برسوں میں ملک میں معذور افراد کی تعداد میں اضافے کی ایک وجہ دہشت گردی کے واقعات بھی ہیں کیونکہ ان میں ہلاکتوں کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگ زخمی اور پھر معذور بھی ہوتے ہیں۔

’’جسمانی معذور بڑھ گئی ہے، دہشت گردی کے واقعات میں جسمانی اور پھر ذہنی معذوری بھی ہوجاتی ہے اور جہاں دھماکا ہوتا ہے تو اس کی گونج سے وہاں لوگ سماعت سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح سے بینائی متاثر ہونے سے بھی معذوروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے لگ بھگ پانچ ہزار اہلکار بھی معذوری کا شکار ہوچکے ہیں۔