’انفرادی طور پر تبدیلی لانا ناممکن ہے اسکے لئے شہریوں کو متحد ہونا ہوگا کراچی کے جو مختلف خوبصورت پہلو سامنے آئے ہیں ان کا ذکر نہ تو اخبارات میں ملتا ہے اور نہ ہی کتابوں میں،‘ کانفرنس کے شرکاء کی گفتگو۔
'منی پاکستان' کہلانے والے شہر 'کراچی' میں پہلی بین الاقوامی کراچی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں شہر کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد نے ’کراچی شہر کی اہمیت‘ کے بارے میں تبصرے کئے۔
کراچی کی آرٹس کونسل میں منعقدہ دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کے پہلے روز شہر کے معروف آرکیٹیکچر عارف حسن نے اپنے وسیع تجربے کی روشنی میں کراچی کی اہمیت کے بارے میں بتایا کہ کراچی 18 کروڑ آبادی والے ملک کا حصہ ہے جس نے دنیا میں دیگر ترقی یافتہ شہروں کی طرح ترقی کی منازل طے کی ہیں۔
عارف حسن نے کراچی کی کالونیوں اور ان کی تاریخی ادوار کے بارے میں گفتگو کی کہ کراچی کی آبادی پاکستان می آبادی کا 10 فیصد ہے جبکہ ملک کی شہری اعتبار سے 22 فیصد شہری آبادی کا حصہ کراچی کا ہے، وہ بتاتے ہیں کہ کراچی 1729 سے تجارت کا آغاز کیا جسمیں میگاسٹی کے اعتبار سے شہر ترقی کی جانب گامزن ہوا۔
معروف آرکیالوجسٹ اسماء ابراہیم نے کراچی کی تاریخ اور ثقافتی ورثے کے حوالے سے بتایا کہ آرکیالوجسٹ ہونےکے اعتبار سے انھوں نے شہر کے بارے میں کافی معلومات جمع کیں ہیں جسمیں غیر سائنسی اعتبار سے بنایا گیا ورثہ بھی ہے جسے کہیں تحریر نہیں کیا گیا۔
محقق گل احمد کلماتی نے کراچی کے یہودیوں کے بارے میں بتایا کہ شہر کے مختلف علاقوں میں یہودی آباد تھے مگر جیسے جیسے دور آگے بڑھا یہودی یہاں سے چلے گئے یہ قیام پاکستان سے قبل 1930 کا دور تھا جب کراچی کے مقامی قبرستان میں پہلے یہودی کو دفن کیا گیا۔
پہلے روز کے آخری سیشن میں پاکستان کی مشہور کلاسیکل ڈانسر شیما کرمانی نے فیض احمد فیض کے کلام پر
گروپ ساتھیوں سمیت رقص پیش کیا۔ شیما کرمانی کا کہنا تھا کہ یہ ڈانس پرفارمنس کراچی کے ان جدوجہد کرنےوالے لوگوں کیلئے ہے جو کراچی میں قتل کئےگئے جسمیں کراچی پائلٹ پراجیکٹ کی پروین رحمان کی خدمات سرفہرست ہیں۔
کانفرنس کے دوسرے روز مشہور مصنف خادم حسین "کراچی کے امن اور برداشت" کے بارے میں گفتگو میں کہا کہ گزشتہ ادوار میں کراچی پرسکون شہروں میں شمار ہوتا تھا سندھ کی تاریخ میں موہن جو دڑو کی تاریخ 5ہزار سال پرانی ہے جبکہ سندھ کے ادوار کئی مشہور صوفی بزرگ بھی گزرے ہیں کراچی کی سمندری بندرگاہ کو دنیا میں اہم مقام حاصل ہے۔ کراچی میں مختلف زبانیں بولنےوالے مختلف ذات سے تعلق رکھنےوالے افراد بستے ہیں۔
اس میں ہندو، پارسی، سکھ، بوہری اور دیگر ذات کے لوگ ہیں گزشتہ ادوار میں تمام ذاتوں کے لوگوں کے ایک ساتھ رہنےکے باوجود کسی زمانے میں کراچی ایک پرسکون شہر ہوا کرتا تھا۔ سندھ ہمیشہ سے ہی مختلف ثقافوں کا مرکز رہا ہے کراچی کا ماضی بہت چمکدار ہے۔
کراچی کانفرنس کے دوسرے روز آرٹ کے شعبے سے تعلق رکھںےوالے افراد نے گفتگو میں مختلف طریقہ آرٹ کے ذریعے شہر کی اہمیت اور حالات بیان کئے جسمیں شریک نیلوفر فرخ نے مختلف پنٹنگ کے ذریعے شہری حالات اور سیاست کے بارے میں بیان کیا۔ ایک تصویر میں مختلف افراد کو اوپر تلے بیٹھا دکھایا گیا ٹاور آف پاور نامی ایک پینٹنگ کے شاہکار کے بارے میں گفتگو میں نیلوفر کا کہنا تھا کہ ہمارے سیاسی اقتدار میں ایک کے اوپر ایک پاور فل شخص بیٹھا ہے جو ریاستی نظام چلارہاہے
نازش بروہی پینل گفتگو کے دوران کراچی شہر کی معمولی باتوں کے بارے میں بتایا کہ چھوٹے علاقوں میں بسنےوالے کیسے عام زبان میں گفتگو کرتے ہیں۔
کانفرنس کے اختتام میں ممبران نے دو روزہ بین الاقوامی کراچی کانفرنس کے بارے میں کہا کہ" اس کانفرنس کے ذریعے شہر کے ورثے کے بارے میں متاثر کن گفتگو ہوئی
اور مختلف پہلو سامنے آئے ہیں جن سے عوام کو سمجھنے میں آسانی ہو گی اس سے قبل خاص طور پر کراچی کی اتنی تفصیل سے کوئی کانفرنس منعقد نہیں ہوئی۔
ممبران کا کہنا تھا انفرادی طور پر تبدیلی لانا ناممکن ہے اسکے لئے شہریوں کو متحد ہونا ہوگا کراچی کے جو خوبسورت پہلو سامنے آئے ہیں ان کا ذکر نہ تو اخبارات میں ملتا ہے اور نہ ہی کتابوں میں۔ کراچی کے حوالےسے ایک مخصوص میوزیم بنانے اور شہریوں کو حصہ لینے کی دعوت دی گئی۔
کانفرنس کی پینل ممبران کی رومانہ حسین نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ" اس کانفرنس کے انعقاد سے ہمیں کئی بنیادی چیزیں سمجھنے کا موقع ملا ہے جس سے شہر کے کئی اہم پہلو سامنے آئے ہیں، اگر شہری اکٹھے ہو کر کسی مسئلے کی جانب نشاندہی کریں تو مسائل کے حل نکلنا آسان ہو جائے۔ کراچی کانفرنس فاونڈیشن کی جانب سے شہری سطح پر کئی ایسے سوشل پروگرام منعقد ہوتے رہیں گے جس میں شہر کی اہمیت کے بارے میں بات ہو"۔
کانفرنس میں شریک ایک شہری کا کہنا تھا کہ "اس کانفرنس سے کراچی کے اچھے خواب کی تعبیر سامنے آئی ہے اگر سب لوگ مل کر چلیں تو کراچی دوبارہ ایک خوشحال شہروں میں شمار ہوسکتا ہے"۔
اس کانفرنس کا انعقاد کراچی کے حوالے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے کیا گیا ہے۔ اس تنظیم میں کراچی شہر سے تعلق رکھنے والے اسکالرز، محققین، آرکیالوجسٹ کلچرل، ماحولیات، معاشی اور آرٹ سے تعلق رکھنے والے افراد اس کا حصہ ہیں۔
کراچی کی آرٹس کونسل میں منعقدہ دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کے پہلے روز شہر کے معروف آرکیٹیکچر عارف حسن نے اپنے وسیع تجربے کی روشنی میں کراچی کی اہمیت کے بارے میں بتایا کہ کراچی 18 کروڑ آبادی والے ملک کا حصہ ہے جس نے دنیا میں دیگر ترقی یافتہ شہروں کی طرح ترقی کی منازل طے کی ہیں۔
عارف حسن نے کراچی کی کالونیوں اور ان کی تاریخی ادوار کے بارے میں گفتگو کی کہ کراچی کی آبادی پاکستان می آبادی کا 10 فیصد ہے جبکہ ملک کی شہری اعتبار سے 22 فیصد شہری آبادی کا حصہ کراچی کا ہے، وہ بتاتے ہیں کہ کراچی 1729 سے تجارت کا آغاز کیا جسمیں میگاسٹی کے اعتبار سے شہر ترقی کی جانب گامزن ہوا۔
معروف آرکیالوجسٹ اسماء ابراہیم نے کراچی کی تاریخ اور ثقافتی ورثے کے حوالے سے بتایا کہ آرکیالوجسٹ ہونےکے اعتبار سے انھوں نے شہر کے بارے میں کافی معلومات جمع کیں ہیں جسمیں غیر سائنسی اعتبار سے بنایا گیا ورثہ بھی ہے جسے کہیں تحریر نہیں کیا گیا۔
محقق گل احمد کلماتی نے کراچی کے یہودیوں کے بارے میں بتایا کہ شہر کے مختلف علاقوں میں یہودی آباد تھے مگر جیسے جیسے دور آگے بڑھا یہودی یہاں سے چلے گئے یہ قیام پاکستان سے قبل 1930 کا دور تھا جب کراچی کے مقامی قبرستان میں پہلے یہودی کو دفن کیا گیا۔
پہلے روز کے آخری سیشن میں پاکستان کی مشہور کلاسیکل ڈانسر شیما کرمانی نے فیض احمد فیض کے کلام پر
کانفرنس کے دوسرے روز مشہور مصنف خادم حسین "کراچی کے امن اور برداشت" کے بارے میں گفتگو میں کہا کہ گزشتہ ادوار میں کراچی پرسکون شہروں میں شمار ہوتا تھا سندھ کی تاریخ میں موہن جو دڑو کی تاریخ 5ہزار سال پرانی ہے جبکہ سندھ کے ادوار کئی مشہور صوفی بزرگ بھی گزرے ہیں کراچی کی سمندری بندرگاہ کو دنیا میں اہم مقام حاصل ہے۔ کراچی میں مختلف زبانیں بولنےوالے مختلف ذات سے تعلق رکھنےوالے افراد بستے ہیں۔
اس میں ہندو، پارسی، سکھ، بوہری اور دیگر ذات کے لوگ ہیں گزشتہ ادوار میں تمام ذاتوں کے لوگوں کے ایک ساتھ رہنےکے باوجود کسی زمانے میں کراچی ایک پرسکون شہر ہوا کرتا تھا۔ سندھ ہمیشہ سے ہی مختلف ثقافوں کا مرکز رہا ہے کراچی کا ماضی بہت چمکدار ہے۔
کراچی کانفرنس کے دوسرے روز آرٹ کے شعبے سے تعلق رکھںےوالے افراد نے گفتگو میں مختلف طریقہ آرٹ کے ذریعے شہر کی اہمیت اور حالات بیان کئے جسمیں شریک نیلوفر فرخ نے مختلف پنٹنگ کے ذریعے شہری حالات اور سیاست کے بارے میں بیان کیا۔ ایک تصویر میں مختلف افراد کو اوپر تلے بیٹھا دکھایا گیا ٹاور آف پاور نامی ایک پینٹنگ کے شاہکار کے بارے میں گفتگو میں نیلوفر کا کہنا تھا کہ ہمارے سیاسی اقتدار میں ایک کے اوپر ایک پاور فل شخص بیٹھا ہے جو ریاستی نظام چلارہاہے
نازش بروہی پینل گفتگو کے دوران کراچی شہر کی معمولی باتوں کے بارے میں بتایا کہ چھوٹے علاقوں میں بسنےوالے کیسے عام زبان میں گفتگو کرتے ہیں۔
کانفرنس کے اختتام میں ممبران نے دو روزہ بین الاقوامی کراچی کانفرنس کے بارے میں کہا کہ" اس کانفرنس کے ذریعے شہر کے ورثے کے بارے میں متاثر کن گفتگو ہوئی
ممبران کا کہنا تھا انفرادی طور پر تبدیلی لانا ناممکن ہے اسکے لئے شہریوں کو متحد ہونا ہوگا کراچی کے جو خوبسورت پہلو سامنے آئے ہیں ان کا ذکر نہ تو اخبارات میں ملتا ہے اور نہ ہی کتابوں میں۔ کراچی کے حوالےسے ایک مخصوص میوزیم بنانے اور شہریوں کو حصہ لینے کی دعوت دی گئی۔
کانفرنس کی پینل ممبران کی رومانہ حسین نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ" اس کانفرنس کے انعقاد سے ہمیں کئی بنیادی چیزیں سمجھنے کا موقع ملا ہے جس سے شہر کے کئی اہم پہلو سامنے آئے ہیں، اگر شہری اکٹھے ہو کر کسی مسئلے کی جانب نشاندہی کریں تو مسائل کے حل نکلنا آسان ہو جائے۔ کراچی کانفرنس فاونڈیشن کی جانب سے شہری سطح پر کئی ایسے سوشل پروگرام منعقد ہوتے رہیں گے جس میں شہر کی اہمیت کے بارے میں بات ہو"۔
کانفرنس میں شریک ایک شہری کا کہنا تھا کہ "اس کانفرنس سے کراچی کے اچھے خواب کی تعبیر سامنے آئی ہے اگر سب لوگ مل کر چلیں تو کراچی دوبارہ ایک خوشحال شہروں میں شمار ہوسکتا ہے"۔
اس کانفرنس کا انعقاد کراچی کے حوالے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے کیا گیا ہے۔ اس تنظیم میں کراچی شہر سے تعلق رکھنے والے اسکالرز، محققین، آرکیالوجسٹ کلچرل، ماحولیات، معاشی اور آرٹ سے تعلق رکھنے والے افراد اس کا حصہ ہیں۔