پاکستان کا اہم شہر کراچی جہاں ایک طرف دہشتگردی سمیت دیگر مسائل کا شکار ہے وہیں ننھے بچے بھی اب جرائم سے محفوظ نہیں رہے ہیں۔ گذشتہ برس کراچی کے مختلف علاقوں سے 2،736 بچے لاپتہ ہوئے۔
اس بات کا انکشاف کراچی میں خواتین اور بچوں کیلئے ایک سرگرم غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے ایک سالانہ رپورٹ کے ذریعے کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی کے مختلف علاقوں سے گزشتہ سال 2013 میں 2،736 بچے لاپتہ ہوئے، جسمیں سے صرف 173 بچوں کی گمشدگی کی ایف آئی آر پولیس تھانے میں درج ہو سکی۔
غیر سرکاری تنظیم روشنی ہیلپ لائن کے سربراہ محمد علی کا کہنا ہے کہ، ’بدقسمتی کی بات ہے کہ جب والدین بچوں کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروانے جاتے ہیں تو پولیس ان سے تعاون نہیں کرتی‘۔
محمد علی کا مزید کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ والدین بچوں کی گمشدگی کی رپورٹ درج ہی نہیں کرواتے جس کی وجہ قانونی اداروں پر عدم اعتماد ہے۔ والدین مزید شکایت کرتے ہیں کہ رپورٹ درج کروانے کے لئَے تھانوں کےکئی کئی چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ایسے کیسز پولیس تھانوں میں درج ہونے کے بجائے روشنی پیلپ لائن کو شکایات کی صورت میں موصول ہوتے ہیں
گمشدہ ہونےوالے ان بچوں کی عمریں 6 سے 14 سال کے لگ بھگ ہے جس میں 66 فیصد لڑکے اور 34 فیصد شرح لڑکیوں کی کی ہے۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ شہر کے مختلف علاقوں میں سب سے زیادہ گمشدگی کی شکایات تیموریہ، جمشید ٹاون، مبینہ ٹاون، عزیز بھٹی اور محمود آباد سے موصول ہوئی ہیں ان علاقوں میں پولیس اور وقانونی ادارے بچوں کی تلاش کیلئے کسی قسم کے اقدامات نہیں کرتے جبکہ والدین اپنی مدد آپ کے تحت ہی312 بچوں کی تلاش کرسکی ہیں جو کہ صرف 17 فیصد ممکن ہوئی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ، ’بچوں کی گمشدگی کی سالانہ رپورٹ پیلپ لائن کو موصول ہونےوالی شکایات اور مساجدوں لئے گئے معلومات سے ترتیب دی گئی ہے جبکہ پولیس تھانوں میں ان اعاد و شمار کو مرتب کرنے کا بھی کوئی ریکارڈ موجود نہیں‘۔
رپورٹ کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں گمشدگی کے کیسز میں سے کئی والدین نے پولیس سے رابطہ کرنے کے بجائے اپنے پڑوسیوں اور اپنی مدد آپ کے تحت 312 بچوں کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ، ’شہر کے مختلف علاقوں میں قائم مقامی مساجد بھی بچوں کی گمشدگی کے بارے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ بچے کے لاپتہ ہونے کے بعد والدین کا پہلا کام مساجدوں میں بچوں کی گمشدگی کے اعلانات کروانا ہوتا ہے۔شہر کی ہر مسجد میں ماہانہ بنیاد پر 2 سے 3 اعلانات کئے جاتے ہیں‘۔
سندھ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کے مطابق اگر 18 سال سے کم عمر کا لڑکا یا لڑکی لاپتہ ہوجائے اور اسکا گھروالوں اور ماں باپ سے کوئی رابطہ نہ ہوسکے تو وہ 'گمشدہ' کہلاتا ہے۔ واضح رہے کہ ملک کے اہم اور بڑے شہر کراچی سے اتنی بڑی تعداد میں بچوں کا گمشدہ ہونا بچوں کے حقوق پر ایک سوالیہ نشان اٹھا رہا ہے۔ جرائم پیشہ عناصر بچوں کے اغوا کے بعد انھیں دوسرے شہروں میں لےجاکر فروخت کرکے پیشہ کماتے ہیں۔ قانونی اداروں کیلئے بچوں ک گمشدگی کایہ سنگین مسئلہ اہم توجہ کا طالب ہے۔
گمشدہ ہونے والے ان بچوں کی عمریں 6 سے 14 سال کے لگ بھگ ہیں جس میں 66 فیصد لڑکوں اور 34 فیصد شرح لڑکیوں کی ہے۔
واشنگٹن —