کراچی اب بھی نئے اور پرانے سنیما ہالز کا مسکن ہے۔ ایک طرف ایٹریم، نیوپلیکس اور دیگر جدید تراش خراش والے انتہائی ماڈرن ٹیکنالوجی کے حامل سنیما ہالز ہیں تو دوسری جانب کرن، بمبینو، کیپری، اسٹارز اور نشمین جیسے پرانے سنیما ہالز بھی ابھی تک اپنا وجود باقی رکھے ہوئے ہیں۔
یہ وہ سنیما ہالز ہیں جہاں آج بھی کچھ نہیں بدلہ۔ وہی سیلن زدہ ماحول، دیواروں سے پپڑیوں کی شکل میں اترتا رنگ و روغن، جگہ جگہ سے اکھڑتا فرش، پرانی سیٹیں، انٹرول سے ایک دو لمحہ قبل ہی سافٹ ڈرنک کے کیریٹ کندھے پر لادھے اور بوٹل اوپنر سے بوتلوں کو مخصوص انداز میں بجاتے کینٹین کارکنوں کی ہال میں آمد، گرما گرم سموسے اور کنستر میں رکھے پیٹس بیچنے والوں کی صدائیں۔۔۔یوں لگتا ہے جیسے وقت ٹھہر سا گیا ہو۔۔
سالوں پہلے بیرون ملک جا بسنے والے پاکستانی کبھی اپنی یادوں میں بسے۔۔ بیتے زمانے کے منظروں کو پھر سے جیتے جاگتے دیکھنا چاہئیں تو ان سینما ہالز کا ایک بار وزٹ ضرور کریں۔ انہیں پتنگ کے پتلے کاغذ سے بنے ٹکٹ تک انہی شاکنگ پنک، گرے، سفید اور ہرے رنگوں میں چھپے نظر آئیں گے جیسے ان کے بچپن اور نوجوانی میں ہوا کرتے تھے۔
وہی زنگ آلود لوہے کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھا ٹکٹ وینڈر، شیشے کے شو کیسز میں لگے فلم کے فوٹوز اور پوسٹر، پرانے پنکھے، اندھیرے سے لڑتے پروجیکٹر روم، دھول سے اٹے بوسیدہ کارپٹس۔۔دم گھوٹتی روشنی۔۔قدیم ساوٴنڈ ٹریک ۔۔۔سب کچھ وہی ہے جو کئی عشروں پہلے ہوا کرتا تھا۔۔۔
کراچی کے قدیم سنیما ہالز سے متعلق وائس آف امریکہ کے اس نمائندے کے مشاہدات کی حقیقت روزنامہ ’ڈان کی’نشیمن سنیما‘ کے بارے میں شائع ہونے والی اس رپورٹ سے بھی مزید واضح ہوتی ہے جس کے کچھ اقتباسات قارئین کی دلچسپی کے لئے ذیل میں شائع کئے جارہے ہیں۔ اخبار لکھتا ہے:
کراچی کی ایک تنگ سی گلی میں واقع ’نشیمن سینما‘ کو ہی دیکھ لیں۔۔آپ کو تاریخ یاد آجائے گی۔ لیکن کمال بات یہ ہے کہ ان تمام ناموافق اور نامساعد حالات میں بھی نشیمن نے اپنا وجود قائم رکھا ہوا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ شہر کے بیشتر پرانے سینما گھر چمکتے دمکتے شاپنگ سینٹرز میں تبدیل ہوچکے ہیں نشیمن سینما کی عمارت اور اس کے اندر موجود کشادہ کار پارکنگ آنے والوں کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ کراچی کے کسی بھی سینما گھر کے کمپاوٴنڈ میں کار پارکنگ کی ایسی سہولت موجود نہیں۔
سینما میں آنے والے شائقین کی انتہائی کم تعداد کے باوجود حیرت انگیز طور پر نشیمن سینما میں تمام سہولیات موجود ہیں۔عمارت کے داخلی رخ پر ٹکٹ کی کھڑکی ہے۔ سینما میں داخل ہوتے ہی ہال کی مصنوعی آرائشی چھت، چمکدار فرش اور رنگ برنگے پوسٹرز آنے والے کا استقبال کرتے ہیں۔مرکزی ہال میں داخل ہونے کے دوراستے ہیں جن کے باہر ٹکٹ چیکرز بیٹھے ہوتے ہیں تو دوسرے کونے میں کینٹین واقع ہے۔ ایک دیوار پرآگ بجھانے والا آلہ بھی نصب ہے۔
نشیمن سینما کی پہلی منزل کو جانے والا زینہ وہیل چئیر استعمال کرنے والوں کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا ہے۔ پہلی منزل کا فرش قالین سے ڈھکا ہوا ہے جبکہ دیواروں کو آئینے اور پینٹنگ سے سجایا گیا ہے۔ لوک داستان سوہنی مہینوال کی عکاسی کرتی پینٹنگ میں سوہنی کو کچے گھڑے پر تیر کر مہینوال کے پاس جاتے دکھایا گیا ہے۔
پہلی منزل کی گول کھڑکیوں سے گلی میں کھیلتے بچوں کا نظارہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ بالائی منزل پر بھی ایک کینٹین میں بن کباب، کولڈ ڈرنک اور کھانے پینے کی دیگر اشیا ملتی ہیں۔ دیواروں کو مختلف پوسٹرز سے سجایا گیا ہے۔ یہاں ایک لیڈیز ویٹنگ روم بھی تھا جو فیمیلز کے نہ آنے کے سبب کئی برسوں سے بند پڑا ہے۔
نشیمن سینما کے پروجیکٹر روم میں 35 ایم ایم کے دو پروجیکٹرز نصب ہیں۔ پروجیکٹر روم میں موجود ٹیکنیشن نے بتایا کہ یہ پروجیکٹرز لاہور کی کمپنی نے بنائے ہیں اور کسی خرابی کی صورت میں کمپنی اپنے ماہرین بھیجتی ہے۔
نشیمن سینما کے اسٹاف نے بتایا کہ اردگرد کے گھروں سے اکثر کچرا چھت پر پھینک دیا جاتا ہے۔ سینما کی چھت کے کناروں پر لگی جالیوں کے ڈیزائن سے جھانکنا مشکل ہے۔ لیکن اور اگر ذرا فاصلے سے اس ڈیزائن کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ عمارت کو منفرد اور خوبصورت روپ دینے کیلئے جالیوں کو ہاتھی کی شکل میں بنایا گیا ہے۔
نشیمن سینما کے مالکان کے بارے میں اسٹاف کا کہنا تھا کہ وہ سینما سے محبت کرنے والے لوگ ہیں اور نشیمن سینما کا قائم رہنا دراصل اسی محبت کی ’انمٹ نشانی‘ ہے۔