کیا متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین اب بھی ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سیاست پر اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ انتخابات سے ایک آدھ دن قبل مسلم لیگ نواز یا آزاد دھڑوں پر ہاتھ رکھ دیں تو کیا ایم کیو ایم پاکستان کو نقصان ہو گا؟ کراچی کی سیاست پر کئی عشروں سے چھائی متحدہ قومی موومنٹ میں تقسیم اور دھڑے بندی کے بعد جو خلا پیدا ہوا ہے کیا پیپلز پارٹی، تحریک انصاف یا سابق مئیر مصطفے کمال کی نئی جماعت پاک سرزمین پارٹی اسے پر کر سکتی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ سینیٹر خالد مقبول کے سامنے رکھے گئے۔
خالد مقبول کا کہنا تھا کہ کراچی کی سیاست الطاف حسین کے اثر و رسوخ سے مکمل آزاد ہو چکی ہے۔ تاہم کوئی وجہ نہیں کہ کراچی کے عوام، کراچی کے ووٹر ایم کیو ایم پاکستان پر اعتماد کا اپنا فیصلہ تبدیل کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہم الطاف حسین سے گزشتہ 22 اگست سے مکمل طور پر الگ ہو چکے ہیں جب انہوں نے ملک اور ریاست کے خلاف نعرے لگائے تھے۔ اس کے بعد سے کراچی کا ووٹر بھی الطاف حسین سے دور چلا گیا ہے۔ اس کا اظہار ضمنی انتخابات میں بھی ہو چکا ہے۔ اب اگر الطاف حسین نواز لیگ یا کسی آزاد گروپ پر ہاتھ بھی رکھیں تو فائدہ نہیں ہو گا۔ الطاف حسین اب کراچی کی سیاست میں غیر متعلق ہو چکے ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے راہنما نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ کراچی میں ان کا مقابلہ تحریک انصاف سے ہے۔ وہ ایک سیاسی حقیقت ہے۔ لیکن 2013 کے انتخابات کی نسبت اس بار کراچی میں اس کے لیے جوش و خروش کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سرزمین پارٹی ایک یونین کونسل بھی جیتنے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور اگر تحریک انصاف نے پی ایس پی کے ساتھ اتحاد کی کوشش کی تو اس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے لیے بھی کراچی شہر میں گنجائش موجود نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حلقہ بندیوں کے ذریعے جیری مینڈرنگ نہ کی گئی ہوتی تو شہر کو کم از کم 40 قومی اور 80 صوبائی حلقے ملتے جس کے ذریعے کراچی کی سیاست پورے ملک کی سیاست پر اثرانداز ہونے کی اہلیت رکھتی۔
انہوں نے دعوی کیا کہ متحدہ قومی موومنٹ کراچی حیدرآباد میں مکمل طور پر کامیابی حاصل کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ انتخابات کے بعد کسی بھی جماعت کے ساتھ اتحاد کے دروازے کھلے ہیں بشمول تحریک انصاف کے۔ تحریک انصاف کے ساتھ ماضی میں سخت کشیدگی رہی ہے مگر اس کی وجہ لندن والی قیادت تھی۔ اب دونوں پارٹیوں کے درمیان کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے بلکہ دونوں مضبوط بلدیاتی حکومت کی حامی جماعتیں ہیں۔