پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے آپریشن کو دو سال مکمل ہونے پر شہر کی سیاست الزامات، صفائیوں اور جوابی الزامات سے پر نظر آتی ہے۔
کراچی آپریشن تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے پانچ ستمبر 2013ء کو شروع کیا گیا تھا۔ آپریشن کے آغاز کا فیصلہ شہر کی امن و امان کی صورتِ حال کے جائزے کے لیے ہونے والے کے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیا گیا تھا جس کی صدارت وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کی تھی۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس آپریشن سے کراچی میں امن و امان کی صورتحال میں بہت بہتری آئی ہے۔
ہفتے کو کراچی پولیس کے سربراہ مشتاق مہر نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ آپریشن کے بعد شہر میں سنگین جرائم میں 70 فیصد تک کمی آئی ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی میں بھی اسی شرح سے کمی ریکارڈ کی گئی ہے لیکن اب بھی شہر میں دہشت گرد موجود ہیں جن کا جلد خاتمہ کر دیا جائے گا۔
لیکن جہاں تک شہر کی سیاسی صورتحال کا تعلق ہے تو اس میں بدستور الزامات، جوابی الزامات اور کشیدگی کا رنگ نمایاں ہے۔
شہر کی موثر ترین سیاسی قوت اور نمائندہ ہونے کی دعویدار جماعت متحدہ قومی موومنٹ ایک عرصے سے الزام لگا رہی ہے کہ کراچی آپریشن میں اسے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ایم کیو ایم کے ارکان پارلیمان نے اس معاملے پر احتجاج کرتے ہوئے پچھلے دنوں سینیٹ، قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی سے استعفے بھی دے دیے تھے جو تاحال منظور نہیں ہوئے ہیں۔
ایم کیو ایم کا الزام ہے کہ حکومت اس کی شکایات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی اور اب پارٹی نے دوبارہ اعلان کیا ہے کہ اس کے ارکان کے اسمبلیوں سے استعفے حتمی ہیں اور حکومت سے مزید مذاکرات نہیں ہونگے۔
سیاسی تجزیہ کار پروفیسر توصیف احمد نے وائس آف امریکہ سے اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم اور حکومت کے مذاکرات میں سہولت کار مولانا فضل الرحمنٰ ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ حکومت اور ایم کیو ایم کے سخت رویہ کی وجہ سے مصالحت کرانے میں ناکام ہوگئے ہیں۔
پروفیسر توصیف کا کہنا تھا کہ جب تک پی پی پی اور ایم کیو ایم اپنے اندر سے جرائم پیشہ عناصر کو نہیں نکالیں گی شہر کے حالات ایسے ہی رہیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں جماعتوں میں اختلافات کوئی نئی بات نہیں۔ کبھی یہ اختلافات بڑھ جاتے ہیں اور کبھی کم ہو جاتے ہیں اور لگتا ہے کہ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد دونوں کے درمیان رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔
لیکن انہوں نے امید ظاہر کی کہ دونوں جماعتوں کے درمیان تناؤ کی کیفیت زیادہ دیر برقرار نہیں رہے گی اور کشیدگی میں کمی آجائے گی۔
صوبے کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بھی کراچی آپریشن میں چھاپوں اور اپنے رہنماؤں کی گرفتاریوں کے خلاف احتجاج کر رہی ہے اور اس کی طرف سے بھی وفاقی حکومت اور رینجرز کے خلاف الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔
تجزیہ کار مظہر عباس نے اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کی سیاست میں ایم کیو ایم اور پی پی پی کے درمیان پرانا تنازع ہے اور اب جو ہو رہا ہے وہ متوقع تھا کیوں کہ دونوں جماعتوں کے قائدین ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے ہیں۔
مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم اس وقت سیاسی تنہائی کا شکار نظر آرہی ہے، نہ اس کے مسلم لیگ ن کے ساتھ حالات بہتر ہو رہے ہیں اور نہ ہی پی پی پی کے ساتھ اور لگتا یہ ہے کہ ایم کیو ایم یا تو خود کو پارلیمانی سیاست سے دور کر رہی ہے یا پھر جیسے کہ وہ الزام لگا رہی ہے کہ اسے دیوار سے لگایا جارہا ہے۔
مظہر عباس کے بقول انہیں لگتا ہے کہ شاید ایم کیو ایم آئندہ بلدیاتی انتخابات کراچی صوبے کی تشکیل کے مطالبے پر لڑے گی۔
ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت بار بار واضح کرتی رہی ہے کہ کراچی آپریشن بلاتفریق تمام مجرموں اور دہشت گردوں کے خلاف ہو رہا ہے اور کسی ایک سیاسی جماعت یا گروہ کے خلاف نہیں ہے۔ مزید یہ کہ یہ آپریشن اپنے منطقی انجام تک پہنچے گا اور اس آپریشن میں صرف دہشت گردوں کو ہی نہیں بلکہ ان کے مدد گاروں اور مالی معاونت کرنے والوں کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا۔