کراچی: سستی کتاب؟ کتابوں کے اتوار بازار آئیے

کتابوں کے اس اتوار بازار میں سستی اور پرانی کتابوں کی فروخت کیلئے ، کسی دکان یا اسٹال کی ضرورت نہیں۔ بس، یوں کہئیے کہ، دکان کے آگے بنے فٹ پاتھوں پر پرانی چادر بچھا کر اُن پر کتابیں سجا دیتے ہیں
کہتے ہیں کہ کتاب سے انسان کی دوستی اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ اسے کسی اور دوست کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کتاب پڑھنے والے کو آجکل کے مہنگائی کے دور میں اگر سستی، نایاب و معیاری کتابیں میسر آجائیں؛ تو صاحب، سودا مہنگا نہیں!

’ریگل چوک‘ صدر، کراچی کی مصروف ترین تجارتی شاہراہ ہے۔ ویسے تو یہ سڑک کنارا، پورا ہفتہ ہی کھچا کھچ بھرا نظر آتا ہے۔ شہر کے اس مصروف ترین بازار میں پورا ہفتہ گاڑیوں اور انسانوں کے رش کے باعث 'تل دھرنے' کی جگہ نہیں ہوتی، مگر 'اتوار' وہ واحد دن ہے جب یہاں کاروباری طبقہ نہیں بلکہ 'کتاب دوست انسانوں' کا رش لگا رہتا ہے۔

شہر کی مشہور صدر مارکیٹ اور پاسپورٹ آفس کے قریب ایک لمبی گلی میں کاروبار تو ہوتا ہے، مگر وہ بھی پرانی اور سستی کتابوں کا، جنھیں خریدنے کیلئے لوگ اتوار کا انتظار کرتے ہیں، اور اِدھر کا رخ کرتے ہیں۔

علی الصبح لگنے والی پرانی کتابوں' کی اس 'اتوار بازار' میں آپ کو کئی شہری کتابیں کھنگالتے نظر آئیں گے، بشمول خواتین، بچے، بوڑھے اور جوان۔

’وائس آف امریکہ‘ کی نمائندہ نے کتابوں کے اس بازار کا رخ کیا، جہاں ایک نوجوان ہاتھ میں 4 سے 5 کتابیں پکڑے ہوئے کئی کتابوں کے عنوانات کو غور غور سے پڑھ رہا تھا۔

دیکھنے میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ

کراچی: چند نوجوان اپنی پسند کی کتابیں خریدرہے ہیں

کئی کتابیں خریدنے کے بعد بھی اس کی تلاش جاری ہے۔

پوچھنے پر بتایا کہ ’میں نے کئی کتابیں خرید لی ہیں۔ مگر، ایسا لگتا ہے ہر کتاب اپنی اہمیت کی کہانی سنا رہی ہے۔ اسلئے فیصلہ کرنے میں دشواری ہو رہی ہے کہ کیا لیا جائے اور کیا نہیں‘۔


کتابیں خریدنے والے ایک اور شہری نے بتایا کہ ’کتابیں تو اردو بازار میں بھی مل جاتی ہیں۔ مگر، اتوار بازار کی بات ہی کچھ اور ہے۔ یہاں پرانی کتابوں کی قیمت نصف سے بھی کم ہوتی ہے، جس وجہ سے ہم یہاں سے کتابیں خریدتے ہیں۔‘

ایک کتاب فروخت کرنے والے نے بتایا کہ وہ پچھلے 30 برس سے یہاں کتابیں فروخت کررہے ہیں۔ بقول اُن کے، یہ وہ دور تھا جب یہاں کمپیوٹر اور انگریزی کی کتابیں زیادہ فروخت ہوا کرتی تھیں۔

کتابیں فروخت کرنے والے ایک اور فرد نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے یہ بازار مین روڈ پر لگتا تھا۔ مگر، اب ایک گلی میں لگاتے ہیں۔ یہ برسوں سے چلا آرہا ہے۔ بازار بند ہوتا ہے تو ہم یہاں کتابیں بیچ لیتے ہیں۔‘

نہ دکان کی ضرورت نہ اسٹال کی اور نہ ہی صفائی کی

کتابوں کے اس اتوار بازار میں سستی اور پرانی کتابوں کی فروخت کیلئے ، کسی دکان یا اسٹال کی ضرورت نہیں۔

بس، دکان کے آگے بنے فٹ پاتھوں پر پرانی چادر بچھا کر، اُن پر کتابیں سجا دیتے ہیں۔


کراچی: سڑک پر غلاظت اور کتابوں کا ایک منظر

جبکہ، بعض دکاندار اضافی کتابوں کو بند دکانوں کے شٹر سے لگا کر بھی سجا دیتے ہیں۔

ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ اگر انتظامیہ کی جانب سے صفائی نہ ہونے پر اس سڑک پر کوڑا کرکٹ بھی موجود ہو تو پھر بھی خریداروں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ پھر بھی کتابیں ڈھونڈنے میں مگن دکھائی دیں گے۔

ہر عنوان پر سستی کتاب دستیاب


یہاں، ہر عنوان پر کتاب دستیاب ہے۔ جسمیں، مشہور و معروف مصنفوں کی کتابیں رکھی جاتی ہیں۔

اُن میں عصمت چغتائی کے ناول،100 نامور خواتین، شیکسپیئر، علامہ اقبال، فیض، اکبر بگٹی، ایدھی،

کراچی: سستی کتابوں کے بازار میں ہر عنوان کی کتاب دستیاب

جواہر لال نہرو اور گاندھی کی انگریزی ترجموں کی کتابیں بھی دستیاب ہیں۔

اس کے علاوہ، سائنس، فکشن، شاعری، انسائیکلوپیڈیا، عربی، بزنس، بینکنگ، ڈاکٹریٹ، کمیوٹر ٹیکنالوجی، انگریزی زبان کی مختلف کتابیں رکھی ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کی نظمیں، کہانیاں اور مختلف عنوانات کی کتابیں موجود ہیں، جنھیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں ہر پڑھنے والے کے ذوق کے مطابق کتابیں موجود ہیں۔

ایک کتاب فروش نے بتایا کہ ’یہاں سستی کتابیں فروخت کرتے ہیں، جسکی قیمت عام بازار کی قیمتوں سے نہایت کم ہوتی ہیں۔ جبکہ میرے پاس500 روپے والی کتاب کی قیمت 100 روپے ہے۔ سستی کتابوں کی وجہ سے گاہک یہاں کا ہی رخ کرتے ہیں‘۔

اتنی سستی کتابیں آتی کہاں سے ہیں؟

سستی کتابیں دیکھ کر ذہن میں خیال آیا کہ اتنی سستے داموں بکنے والی کتابوں کا ذریعہ کیا ہے اور یہ کہاں سے لائی جاتی ہیں؟ اس کاروبار سے منسلک ایک فرد نے بتایا کہ ’یہاں کتابیں لاکر فروخت کرنے کے مختلف ذرائع ہیں‘۔

ایک ذریعہ پرانے سامان اور کباڑ کی دکانیں ہیں، جہاں ہم خود جاکر اپنے حساب سے کتابیں نکال کر یہاں فروخت کیلئے لاتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ اپنی پڑھی ہوئی کتابیں بھی ہمیں یہاں لاکر بیچ دیتے ہیں۔

کتاب کلچر کو فروغ


ایک اور کتاب فروش کا کہنا تھا کہ یہ سستا بازار، کتاب کلچر کو فروغ دینے کا سبب ہے۔

ایک خریدار اپنے پسند کی کتاب دیکھ رہاہے

ویسے کچھ کتابیں انٹرنیٹ پر مل جاتی ہیں۔ مگر پڑھنےوالا کتاب کا مطالعہ ہی کرتا ہے، جس کے بغیر اسکی تسلی نہیں ہو سکتی۔

دو بچوں کے ہمراہ، ایک شہری کتابیں خریدنے میں محو تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ چھوٹے بچوں میں کتابوں کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے، اچھا ہے کہ انھیں ڈرائنگ اور تصاویر والی کتابیں دلائی جائیں، تاکہ یہ چھوٹی عمر سے ہی پڑھنے کی جانب راغب ہوں۔