کراچی میں سجا پہلا 'ٹیچرز لٹریچر فیسٹیول‘

’آجکل کے بچے ٹیچرز سے زیادہ ذہین معلوم ہوتے ہیں۔ وہ سوال زیادہ کرتے ہیں۔ اس صورتحال میں ٹیچرز کو مکمل طور پر تیار رہنا ضروری ہے‘: رومانہ حسین
کسی بھی معاشرے کی بگاڑ اور بنانے میں استاد کا کردار اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اسی اہمیت کو سمجھتے ہوئے کراچی میں 'ٹیچرز لٹریچر فیسٹیول' کا انعقاد کیا گیا۔

بدھ کے روز آرٹس کونسل آف پاکستان میں اساتذہ کیلئے سجائے گئے اس فیسٹیول میں 2000 سے زائد اساتذہ نے شرکت کی۔

ٹیچرز ڈرامائی کرداروں میں ڈھل گئے
ٹیچرز لٹریچر میں آنےوالے اساتذہ کیلئے اپنی نوعیت کا ایک دلچسپ ورکشاپ منعقد کیا گیا جسمیں اساتذہ نے ڈرامائی کرداروں میں ڈھل کر کہانیاں پیش کیں۔

کراچی میں اساتذہ کو ڈرامائی انداز سے بچوں کو سبق سکھانے کے طریقوں میں مہارت دینے کیلئے بیرون ملک نیپال سے خاتون ٹیچر شانتا ڈکشٹ خصوصی طور پر کراچی آئیں۔

وہ پچھلے 22 سالوں سے نیپال کے شہر کھٹمنڈو میں درس و تدریس کے شعبے سے وابسطہ ہیں۔ ’وائس آف امریکہ‘ کی نمائندہ سے خصوصی گفتگو میں کہتی ہیں کہ ’پاکستان میں ڈرامائی انداز سے بچوں کو سیکھنے کی بہت ضرورت ہے۔ اس طرح، کلاس روم کا ہر بچہ اسمیں شمولیت اور توجہ حاصل کرتا ہے۔‘

جب ڈرامائی اور کہانیون کے کرداروں سے بچے سیکھتے ہیں تو ان کو وہ سبق اگلی سطح تک یاد رہتا ہے۔ اس طرح، وہ زیادہ سیکھتےاور سوال کرتے ہیں۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان میں سرکاری تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبا بہت کچھ سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مگر، ایک استاد ہونے کے ناطے ہمیں اس پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے کہ بچوں میں سیکھنے کے عمل کو کس طرح پروان چڑھایا جائے۔ استاد کو اسمیں محنت اور مزید ٹریننگ کی ضرورت ہے‘۔


اس ورکشاپ میں آنےوالی اساتذہ نے تبادلہ خیال کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس طرح کی سرگرمیاں ٹیچرز کو بچوں کی توجہ حاصل کرنے کا ایک اچھا ذریعہ ہے، جو کہ ہر استاد کیلئے ضروری ہے۔ یہ سیکھ کر، ٹیچرز بچوں کو زیادہ اسانی سے سیکھیں گے اور ساری بچے ایکساتھ توجہ لے سکیں گے‘۔

ایک اور ٹیچر کا کہنا تھا کہ ’جب ہم اتنا دلچسپی لے رہے ہیں تو بچے بھی بہت اچھی طرح سے سیکھیں گے‘۔

بچوں کے مسائل میں اساتذہ کا کردار

کلاس رومز میں بچوں کے لکھنے اور پڑھنے کے مسائل پر بھی اساتذہ کیلئے ایک سیشن منعقد کیا گیا، جسمیں ٹریننگ دینے والی شاہینہ علوی نے بتایا کہ ’کراچی میں ہر جگہ نجی اسکولوں کی بھرمار ہے۔ وہاں تجربہ کار ٹیچرز موجود نہیں ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ پاکستانی معیار تعلیم کے حوالے سے ٹیچرز کو مزید تربیت دیں‘۔

ہمارے ہاں، کچھ ہی اسکول ہیں جہاں مکمل ٹرینڈ ٹیچرز ہوتے ہیں، جبکہ بہت سے ٹیچر اس پیشے کو صرف نوکری سمجھ کر کام کرتے ہیں۔

جو بات ضروری ہے وہ یہ کہ بچوں کو کس طرح پڑھایا جا رہا ہے۔ اگر بچہ صحیح نہیں سیکھتا، تو اسمیں کہیں نہ کہیں استاد کی غلطی ہوتی ہے۔

’ٹیچرز لٹریچر فیسٹیول‘ کی آگنائزر رومانہ حسین کا کہنا تھا کہ ’جب چلدڑن فیسٹیول کا انعقاد ہوا، تو محسوس ہوا کہ ایک دن ٹیچرز کیلئے بھی مخصوص کیا جائے۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’تعلیم میں رٹہ نظام کی موجودگی کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ ٹیچرز کو ایسے طریقوں سے روشناس کرایا جائے کہ وہ بچوں میں سیکھنے کے عمل کو بہتر بنائیں۔

گھسے پٹے طریقے کی تعلیم سے بچوں میں تخلیق کا عمل ختم ہوتا جا رہا ہے۔


اس فیسٹیول کا اہم مقصد بچوں کی اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کیلئے ٹیچرز کو نئے طریقے سکھانا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ’آجکل کے بچے ٹیچرز سے زیادہ ذہین معلوم ہوتے ہیں۔ وہ سوال زیادہ کرتے ہیں اس لئے، آجکل کے دور کو مد نظر رکھتے ہوئے، ٹیچرز کو مکمل طور پر تیار رہنا ہوگا۔


بچوں کی کتابوں کی تقریب رونمائی

میلے میں ایک سیشن کتابوں کی رونمائی کا بھی تھا، جس میں رومانہ حسن کی لَڈو پیدا ہوا ،لیلیٰ اور مُنی گڑیا، رعنا لیاقت علی خان تصویری کہانی سلسلہ، سمیت دیگر مصنفوں کی کتابوں کی تقریب رونمائی کی گئی۔

بچوں کی کتابوں کے حوالے سے، رومانہ حسین کا کہنا تھا کہ ’بچے انٹرنیٹ استعمال کرنے کے باوجود، کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں، جس میں نظمیں ہوں کہانیاں ہوں‘۔

اُنھوں نے کہا کہ بچے رنگ برنگی تصاویر دیکھنا چاہتے ہیں، جب کہ پڑھنے سے دلچسپی اب بھی قائم ہے۔

کہانیوں اور نظموں کی کتابیں بچوں کے ذہنوں پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہیں تصورات کو ابھارتی ہیں، جس سے سوچ مضبوط ہوتی ہے، جبکہ بچوں کی طرف سے ان کتابوں کا اچھا تاثر ملتا ہے۔

فیسٹیول کے اختتام پر، اساتذہ نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی سرگرمیاں نجی و سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کیلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔


اس سلسلے میں، اُن کا کہنا تھا کہ ٹیچرز سلیبس سے ہٹ کر بہت سے نئے طریقوں کی مدد سے، بچے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، نئے طریقوں سے معلومات حاصل کرتے ہیں۔


ساتھ ہی، کہانیوں کی نئی کتابوں سے بھی بچوں میں سلیبس کی کتابوں کے علاوہ نئی مہارتیں سکھائی جاسکتی ہیں۔

شرکا کے بقول، غیر نصابی کتابوں سے بھی بچوں کو زیادہ معلومات حاصل ہوتی ہیں۔


اساتذہ کیلئے مختلف لیکچرز اور نئے طریقوں اور ورکشاپ کیلئے آرٹس کونسل میں مختلف شعبے ترتیب دیے گئے تھے، جس میں داستان سرائے، شاہ عبداللطیف بھِٹائی، کتاب گھر، طلسمِ ہوش رُبا، ٹوٹ بٹوٹ، اوطاق، توتا کہانی اور شاہی گزرگاہ کا روپ اور جھلک موجود تھیں۔۔

جہاں آرٹ آف ریڈنگ، اساتذہ کیلئے تخلیقی سرگرمیاں، کلاس روم میں نِئے میڈیا کا استعمال، تعلیم میں زبانوں کے استعمال، اساتذہ کچہری، پاکستان کا تعلیمی ورثہ کی کئی مراحل کی جھلک پیش کی گئی، اور مختلف کتابوں کے اسٹال بھی لگائے گئے۔