کراچی والوں کے لئے بدھ کی شام بہت بوجھل تھی ۔ پورے ملک کا اندازہ تو خود لگائیے البتہ شہر قائد کے لوگ اور خصوصاً خواتین میں گویا کف افسوس ملا جارہا تھا۔گلیوں میں وہ پہلے جیسا شورشرابہ نہ تھا ۔ ایک عجیب سی خاموشی تھی ۔ فلیٹوں کی گیلریاں حسب توقع خالی نہ تھیں اور اکا دکا خواتین اڑوس پڑوس والیوں سے محو گفتگو تھیں۔
ان کے پاس بات کرنے کا موضوع اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ پاکستان" چھوٹے استاد"سے محروم ہوگیا۔" بدائی" کی گھڑیاں بھی سونی ہوگئیں، اب نہ آئے گی" راجہ کی برات"، اب جانے کیا ہوگا "پریگیا "کا انجام ، کون ہوں گے" انڈین آئیڈلز "، "سی آئی ڈی " میں قتل کا راز کون بتائے گا ؟ تارک مہتا کا الٹا چشمہ میں جیٹھا لال کون سی نئی مصیبت میں گھرے گا، جھوٹ مت بولو میں نقلی خاندان کا راز کہیں افشاں نہ ہوجائے، سسرال گیندا پھول کی ہیروئن دوبارہ کب ہنستی نظر آئے گی،سب کی لاڈلی بے بو، یہ رشتہ کیا کہلاتا ہے، پاپڑ پول، لاپتہ گنج اور ۔۔۔اور سب سے بڑھ کر اب ہم فیشن کے نئے نئے ڈیزائن کہاں دیکھیں گے ، گرمی کی لمبی دوپہریں کیسے کٹیں گی، شام کی مصروفیات کا کیا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔
سچ پوچھئے تو کراچی کی شامیں اب گھر کے ڈرائنگ روم میں ٹی وی دیکھنے کے علاوہ کسی کام کی نہیں ۔ بدھ کی شام اچانک ٹی وی پر کیبل آپریٹرز کے اس اعلان نے سب کو ہلا دیا کہ اب پڑوسی ملک سے چلنے والے چینلز نہیں دیکھے جاسکیں گے
پاکستان میں بھارتی ٹی وی چینلز دیکھنے کا رجحان بہت پرانا ہے ۔ جس زمانے میں پی ٹی وی کا طوطی بولتا تھی اس دور میں بھی لوگ پڑوسی ملک کے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی دور درشن کی ایک جھلک دیکھنے کو اتاولے رہتے تھے۔ لاہور کاواقعہ ہے ، وہاں سے سرحد قریب ہے اس لئے جب کبھی ہوا اس طرف کی ہوتی لوگ سر شام ہی اپنے اپنے ٹی وی سیٹ کے کان مروڑنے شروع کردیتے۔ اس دور کے ٹی وی سیٹ میں بھلا تین چار سے زیادہ چینل بدلنے کی گنجائش کہاں ہوتی تھی۔۔۔ خیر ایک آدھ بار چینل کے بٹن کو الٹا سیدھا اور کبھی اس رخ اور کبھی اس رخ کرکے دور درشن آہی جاتا تھا۔ اتنی تگ و دو کے بعد آخر کیا دیکھا جاتا تھا ؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے۔۔۔ بھارتی فلمیں اور موسیقی کے پروگرام!!! ڈرامے تو وہ خود ہمارے دیکھنا پسند کرتے تھے۔ اور ان کے ہاں ڈرامے آتے بھی کب تھے۔ ان کے ہاں ڈراموں یا سوپ اوپیرا کا رجحان خود 1986میں پڑا۔ ورنہ ان کے ٹی وی چینلز کا حال بھی ہمارے اب کے پی ٹی وی سے مختلف نہ تھا۔
دور درشن وہاں کا واحد سرکاری چینل تھا اور دور دور تک یہ امید نہیں تھی کہ اس کی اجارہ داری ٹوٹ سکے گی مگر 1990ء کے اوائل میں پہلا سیٹیلائٹ ٹی وی چینل "زی ٹی وی " آیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے وہ شہرت حاصل کی سارے بھارت کی سرحدیں سمٹ کر چھوٹی ہوگئیں ۔ ڈش کے ذریعے اسے پاکستان میں بھی پذیرائی ملی اور اس قدر پذیرائی ملی کہ کراچی ، لاہور ، کوئٹہ، پشاور تو ایک طرف بلوچستان کے نہایت دور افتادہ علاقوں میں بھی ڈشوں کی مانگ پورا کرنا مشکل ہوگیا۔
زی ٹی وی کی پاکستان میں شہرت کی ایک وجہ یہ تھی کہ پی ٹی وی بوسٹر سسٹم کے تحت اپنی نشریات دکھاتا تھا اور تمام دور افتادہ علاقوں تک یہ بوسٹر ز اور ٹی وی کی نشریات پہنچانا مشکل ترین اور مشقت طلب کام تھاجبکہ ڈش نے یہ مشکل پلک جھپکتے ختم کردی۔ عوامی پذیرائی کی دوسری وجہ یہ تھی کہ بھارتی ٹی وی کو وہاں کی فلم انڈسٹری کے کاندھوں کا نہایت مضبوط سہارا ملا ہوا تھا۔ جو فلمیں اور گانے یا یوں کہئے موسیقی فلموں کی شہرت کا سبب تھی وہی تمام چیزیں ٹی وی کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے میں مدد گار ثابت ہوئی۔
چھتوں چھتوں ڈش لگانے کا رجحان ایل ایم بی کی چوری کے سبب ناکام ہوا ۔ دوسری طرف بھارتی ٹی وی چینلز والوں کو جب یہ پتہ چلا کہ وہ پاکستان میں اس قدر مقبول ہیں تو انہوں نے پیسہ کمانے کے لئے ڈی کوڈر کی شرط لگا دی ۔ پڑوسی ٹی وی کے مزے لوٹنے والوں نے اس کی بھی پروا نہیں کی اور گھر گھر ڈی کوڈر بھی آگئے۔ ادھر بھارتیوں کو لگا کہ اور پیسہ کمایا جاسکتا ہے لہذا انہوں نے ایسی ٹیکنالوجی اپنائی جس سے مخصوص گھنٹوں بعد ٹی وی کی نشریات بند ہونے لگیں اور دوبارہ ٹی وی دیکھنے کے لئے کارڈ خریدنا پڑتا تھا ۔ بلکہ اسی طرح جس طرح آج موبائل کارڈ خریدا جاتا ہے۔ یہ کارڈ خاصا مہنگا پڑنے لگا تو لوگوں نے آپس میں ڈشوں اور کارڈوں کے لئے سمجھوتا کرنا شروع کردیا۔ اب ایک اپارٹمنٹ میں دو چار ڈش لگتیں اور باقی سارے انہیں ڈش کے مالکان سے ماہانہ شیئرنگ کرنے لگے ۔ یہ سسٹم اتنا پھلا پھولا کہ باقاعدہ کیبل آپریٹرز وجود میں آگئے۔
بھارتی ٹی وی خواہ وہ تفریحی ہوں یا نیوز چینل انکی دیکھا دیکھی پاکستان میں بھی پرائیوٹ ٹی وی چینلز کا رجحان عام ہوا۔ شروع شروع میں پرائیویٹ چینل کا قیام جوئے شیر لانے کے مترادف تھا مگر بدلتے زمانے اور نئی ٹیکنالوجی پر کوئی روک نہیں لگا سکتا لہذا پاکستانی حکومتوں کے پاس بھی میڈیا کو آزاد کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا ۔ ایک چینل آنے کی دیر تھی کہ پھر تو گویا لائن لگ گئی۔ تفریحی چینلز، نیوز چینلز، کھانا پکانا سکھانے والے چینلز ، علاقائی زبانوں کے چینلز اور نہ جانے کون کون سے اور کتنے چینل اس وقت پاکستان کی فضاء میں دیکھے جاسکتے ہیں اس کا اندازہ لگانا بھی نہایت دقت طلب ہے۔ اس وقت اگر آپ ہر چینل پر صرف ایک ایک منٹ رکیں تب بھی ایک سے ڈیٹرھ گھنٹے میں صرف آپ ان چینلوں کی صحیح تعداد کا پتہ جان سکیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا میڈیا آزاد ہوچکا ہے ، مگر مشاہدہ یہ ہے کہ یہ کیبل آپریٹرز کا محتاج مگر۔۔۔آزاد میڈیا ہے۔ تین نومبر کو سابق فوجی حکومت نے تو ایک دفعہ ٹی وی چینلز پر پابندی لگا ئی تھی مگر وہ کیبل آپریٹرز کو یہ کارگر نسخہ بتا گئے کہ آزاد میڈیا کے پاوٴں میں یوں بھی زنجیر ڈالی جاسکتی ہے۔ آج کسی بھی سیاسی پارٹی کے لئے اپنی پسند کی خبر نہ چلانے پر بھی کیبل آپریٹرز کو ڈرا دھمکا کر نشریات بند کرائی جاسکتی ہیں۔ کسی اور ملک کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہوگا جو ہمیں ہے۔ ہم ریاست کے چوتھے ستون کو یوں خاموشی سے ہلا دیتے ہیں کہ برابر والے کو بھی پتہ نہیں چلتا۔
بھارتی ٹی وی پروگراموں اور ڈراموں کو پسند کرنے والی ایک خاتون عائشہ کریم سے جب یہ پوچھا گیا کہ وہ غیر ملکی چینلز ہی کیوں دیکھتی ہیں تو ان کا کہنا تھا۔ " ان چینلز کو پسند کرنے کی عادت ہی نے میڈیا کو نیا راستہ دیا ہے ۔ نہ یہ چینلز دیکھے جاتے نہ اتنا بوم آتا ۔ اگر ہم دوسروں کے چینلز دیکھ رہے ہیں تو دوسرے بھی تو ہمارے چینلز دیکھتے ہیں۔ بھارت میں پاکستانی چینلز دیکھنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ پاکستانی مذہبی چینلز وہاں سب سے زیادہ دیکھے جاتے ہیں"۔
کراچی کے ایک تاجر سلیمان ساجد کا کہنا تھا "حالیہ برسو ں میں پاکستان میں دوانڈسٹریز نے بہت عروج پایا ہے۔ ایک مواصلات نے کہ ایک گھر میں اگر چار لوگ ہیں تو چاروں کے پاس فون موجود ہیں۔ اور دوسرے میڈیا انڈسٹری۔ اب ٹی وی سیٹ میں اتنے چینلز نہیں ہوتے جتنے چینلز ہوا میں ہیں۔ اس سے مقابلے کی فضاء پیدا ہوئی ہے ، میڈیا کی بدولت لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے ،صحافت ترقی کررہی ہے، روزگار کے نئے مواقع پیدا ہورہے ہیں۔ اور کیا چاہئے۔ رہی بات وقت بے وقت بندش کی تو یہ بھی چند سالوں کی کہانی ہے پھر ڈی ٹی ایچ ٹیکنالوجی آرہی ہے یعنی ڈائریکٹ ٹو ہوم ۔۔۔اس سے کوئی نشریات بند کرہی نہیں سکے گا۔ آپ اپنی مرضی سے اپنی پسند کے چینلز دیکھ سکیں گے۔میں تو کہتا ہوں نہ کیبل آپریٹرز کو اور نہ کسی اور اتھارٹی کو یہ چینلز بند کرنے چاہئیں ۔ اگر کسی چینل کی رجسٹریشن نہیں تو حکومت اسے بند کرنے کے بجائے قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے رجسٹریشن پر مجبور کرے نہ کہ اس کی سزا عوام کو دی جائے۔ میں کہتا ہوں انڈسٹری بڑھ رہی ہے ، بڑھنے دیں ۔۔۔ہاں حتمی اقدام کے طور پر کسی چینل کو بند کیا جائے تو بہتر ہوگا یہ کیا کہ ایک ساتھ اٹھاکر سارے چینل بند کردیئے۔ یہ تو تفریحی قتل ہوا۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا"۔
ایک اور صاحب کا کہنا تھا : کراچی جیسے شہر میں جہاں کا سیاسی موسم بھی لمحے میں بدل جاتا ہے ، وہاں روز مرہ کی ہنگامہ آرائی سے بچ کرلوگ کمروں میں بند ہوکر ٹی وی دیکھنا پسند نہ کریں تو کیا کریں! پھر یہاں تفریح کے مواقع بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اوپر سے مہنگائی نے کمر توڑی ہوئی ہے۔ایسے میں اگر سستی تفریح مل جائے تو کسی کا کیا نقصان ہے۔ آپ اپنی مرضی دوسروں پر نہیں تھوپ سکتے۔ آج کے دور کا ہر شخص آزاد ہے"۔