کراچی میں سیاسی جماعتوں کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے باعث شہر میں پانچویں روز یعنی ہفتے کو بھی بدامنی پر قابو نہیں پایا جا سکا اور گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران پر تشدد واقعات میں کم ازکم 14 افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے۔
مرنے والوں میں پولیس اہل کار کے علاوہ عام افراد اور حکمران اتحاد میں شامل ایم کیو ایم اور اے این پی کے کارکن شامل ہیں۔
شہر میں کشیدگی پر قابو پانے کے لیے رینجرز اور پولیس کے چھاپے ہفتے کو بھی جاری رہے اور مختلف مقامات سے مزید درجنوں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ادھر چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس مشیر عالم نے کراچی میں ایک بار پھر شہر میں قتل و غارت کے تواتر سے ہونے والے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان واقعات کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کی ہے۔ دوسری جانب صدر آصف علی زرداری نے بھی جو جمعہ کو لندن سے کراچی پہنچے شہر میں بدامنی کا نوٹس لیا ہے اور صوبائی عہدیداروں سے ملاقات میں شہر میں امن و امان یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات کا حکم دیا ہے۔
جس کے بعد صوبائی وزیرداخلہ سندھ منظور وسان نے پولیس افسران کو اپنے اپنے علاقوں میں امن و امان یقینی بنانے کی ہدایت کی اور کہا ہے کہ شرپسندوں کے خلاف فوری کارروائی نہ کیے جانے پر متعلقہ تھانوں کے افسران کے خلاف کارروائی کی جائے گی ۔
کراچی میں حالیہ فسادات منگل کو ایم کیو ایم کے ایک کارکن کے قتل کے بعد سے شروع ہوئے تھے ۔ اب تک پرتشدد واقعات میں مجموعی طور پر کم ازکم تیس افراد ہلاک اور پچاس سے زائد گاڑیاں نذرآتش کی جاچکی ہیں ۔
ادھر ایم کیو ایم نے اپنے کارکنوں کی ہلاکت پر ہفتے کو ایک بار پھر یومِ سوگ کا اعلان کیا اور تاجروں سے اپنا کاروبار بند رکھنے کی اپیل کی جس کے بعد شہر میں ہفتے کو سماجی و اقتصادی زندگی مکمل طور پر معطل رہی ۔ پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی میں ایک ہفتے کے دوران یہ تیسرا یومِ سوگ تھا ۔ اس سے قبل اپنے کارکنوں کی ہلاکت پر ایم کیو ایم منگل کو بھی یومِ سوگ مناچکی ہے جب کہ اے این پی نے جمعرات کو سوگ منایا تھا ۔
کراچی چیمبر آف امرس کے مطابق شہر میں ایک روز کاروبار بند رہنے سے تین سے چار ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ ادھر آئے روز کاروبار بند رہنے سے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے بھی شدید متاثر ہوتے ہیں۔ شہریوں کا مطالبہ ہے کہ سیاسی جماعتیں کراچی میں مستقل امن کے قیام کے لیے اپنے اختلافات دور کریں جب کہ حکومت بدامنی پر قابو پا کر لوگوں کی جان اور مال کو تحفظ فراہم کرے ۔