پاکستان کے بڑے کاروباری مرکز اور ساحلی شہر کراچی میں تشدد کی لہر جاری ہے اور کچھ اندازوں کے مطابق گزشتہ تین سال میں یہاں ہلاک ہونے والوں کی تعداد پاکستان کے باقی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں سے تجاوز کر گئی ہے۔ سن 1995 کے بعد سے گزشتہ چند ماہ کے دوران کراچی میں سب سے زیادہ تشدد کی واقعات دیکھے گئے ہیں اور آئے دن ذرائع ابلاغ میں ہلاکتوں کی اطلاعات آتی رہتی ہیں۔
پاکستان کے انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس کمشن کا کہنا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں اس سال کے صرف پہلے چھ ماہ میں 490افراد ہلاک ہوئے جبکہ گزشتہ ایک سال میں 748افراد پر تشدد واقعات میں ہلاک ہوئے تھے۔ ہیومن رائٹس کمشن کے بقول ’ کراچی کو مختلف قسم کے سیاسی اور معاشرتی انتشار اور فرقہ واریت کی لہر وں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے شہر کی رواداری کی روایت کو دھچکہ لگا ہے۔
مگر کراچی میں اتنی زیادہ ہلاکتوں کے باوجود شہر کے ایک صحافی علی چشتی کہتے ہیں کہ باقی دنیا نے اس واقعات کے بارے میں کوئی رد عمل نہیں دکھایا۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا اس معاملے پر کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ اور ذرائع ابلاغ یا تو اس پر توجہ نہیں دیتی اور دیتی ہے تو درست رپورٹنگ نہیں کی جاتی۔ کراچی دنیا کا ایک بڑا شہر ہے جو تشدد کی لہر میں بہتا جا رہا ہے ۔
شہر میں تشدد کے زیادہ واقعات ایک پرانی سیاسی جماعت جو شہر کی سیاست پر حاوی رہی ہے اور قدرے نئے آنے والے گروہوں کے درمیان اختلافات کا نتیجہ ہے۔ سالہا سال سے تقسیم ہند کے وقت بھارت سے اردو بولنے والے پاکستان منتقل ہونے والےمہاجروں کی نئی نسلیں شہر کی سیاست پر حاوی رہی ہیں اور ان کی نمائندہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ کا یہاں کی سیاست پر گہرا اثر رہا ہے۔
مگر تجزیہ نگار وں کا کہنا ہے کہ حالیہ عشروں کے دوران پشتوں آبادی میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے صورتحال کافی تبدیل ہوگئی ہے ۔ بہت سے پٹھان پاکستان کے قبائلی علاقوں میں انتشار کی وجہ سے نقل مکانی کر کے شہر میں آبسے ہیں۔
واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ تجزیہ کار مارون وائن بام کہتے ہیں کہ بہت سے پشتون بہتر روزگار کی تلاش میں کراچی کا رخ کرتے ہیں جو ایک بڑا کاروباری اور تجارتی مرکز ہے۔پشتونوں کی نقل مکانی کی وجہ سے اردو بولنے والے مہاجر کچھ خوش نہیں۔
وائن بام کہتے ہیں ’یہاں دو مختلف ثقافتوں کے لوگوں کا ایک دوسرے سے رابطہ ہوتا ہے اور دونوں وسائل کے حصول کے لئے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں جو بیشتر اوقات عام جرائم کے زعمرے میں آتی ہے اور جس کو نسلی رنگ دے دیا جاتا ہے۔ ‘
شہر میں شعیہ اور سنی فرقوں کے درمیان بھی تشدد کے واقعات دیکھے گئے ہیں۔ وائن بام کہتے ہیں، ’ اس وقت تشدد کی ایک اور وجہ مہاجر آبادی کےوہ حالات بھی ہیں جو ایم کیو ایم کے دوحصوں میں بٹنے کی وجہ سے پیدا ہیں۔بظاہر یہ ایک پیچیدہ صورتحال ہے جسے مقامی انتظامیہ سنبھالنے میں ناکام نظر آتی ہے۔‘
حکومت نے شہر میں امن قائم کرنے کے لئے نیم فوجی دستے تو بھجوائے ہیں مگر وہ فوج تعینات کرنے سے گریزاں ہے۔ کچھ لوگ سن 1995میں فوج کی جانب سے کراچی میں انتشار پر قابو پا نے کے لئے غیر ضروری طاقت کے استعمال پر نالاں ہیں۔
پاکستانی جریدے فرائڈے ٹائمز کے نمائندے علی چشتی کا خیال ہے کہ حکومت تشدد کنٹرول کر نے کی اہلیت نہیں رکھتی۔وہ کہتے ہیں کہ اب اگر حکومت چاہے بھی تو تشدد پر قابو نہیں پاسکتی اس لئے کہ نسلی گروہوں اور مذہبی فرقوں سے تعلق رکھنے والے گینگ شہر پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔
واشنگٹن کے ایک قدامت پسند تھنک ٹینک دی ہیریٹیج فاؤنڈیشن سے منسلک جنوبی ایشیائی امور کی تجزیہ نگار لیزا کرٹس کہتی ہیں کہ تشدد کے ان واقعات کی وجہ سے امریکی پالیسی ساز اداروں میں صدر آصف علی زرداری کی حکومت کے مستحکم ہونےکے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے۔
لیزا کرٹس کہتی ہیں ، ’اگر شہر میں 30-40افراد ایک دن میں ہلاک ہوتے ہیں تو یہ انتہائی تشویش کی بات ہے۔ یہ واقعی ایک بحران کی صورتحال ہے اور پیپلز پارٹی کی حکومت پر اعتماد کے لئے بھی ایک بحران ہے۔ اورحکومت صورتحال پر قابو پانے کے قابل نہیں۔ اور مجھے لگتا ہے کہ اس سے صدر زرداری کی حکومت پر اعتماد کم ہوگا اور وہ مزید کمزور ہوگی ۔‘
وہ کہتی ہیں کہ امریکہ کو تشویش ہے کہ مسلمان انتہا پسند اس عدم استحکام کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ علی چشتی کا خیال ہے کہ القاعدہ اور طالبان عناصر کراچی میں چھپے رہے ہیں۔
ان کے بقول، ’انہوں نے یمن اور بالی میں دہشت گر د حملے کئے۔وہ بھاری تعداد میں یہاں موجود ہیں۔ ان کے پاس لوگوں میں رہنے کے لئے پناہ گاہیں ہیں۔ اگر آپ ان جگہوں کو دیکھیں جہاں سے القاعدہ اور طالبان عناصر گرفتار کئے گئے ہیں تو یہ وہ ٕمضافاتی علاقے ہیں جہاں زیادہ تر آبادی پشتوں مہاجروں کی ہے۔‘
امریکہ میں گیارہ ستمبر کے حملوں کا سرغنہ خالد شیخ محمد سن 2002میں کراچی میں رہائش پذیر تھا۔ گرفتاری کے بعد اس نے اعتراف کیا کہ اس نے امریکی صحافی ڈینیل پرل کو کراچی میں ہی اغوا اور قتل کیا تھا۔اورسن 2010میں پاکستانی سکیورٹی فورسز نے طالبان رہنما ملا عبدل غنی برادر کو بھی کراچی سے ہی گرفتار کیا تھا۔