پاکستان کے تجارتی مرکز اور روشنیوں کے شہر کراچی کو ایک مرتبہ پھربد امنی نے گہنا دیا ہے ۔شہر میں امن کیلئے صدر زرداری کی مفاہمت کام آرہی ہے نہ ہی رحمن ملک کی سیاسی جادو گری۔ ۔صرف مئی میں ٹارگٹ کلنگ اور دیگر واقعات میں ایک سو افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔
بدھ کو اورنگی ٹاوٴن ، شاہ فیصل کالونی، ماڈل کالونی اور لیاری میں فائرنگ اور پرتشدد واقعات میں ایک سیاسی جماعت کے کارکن سمیت مزید آٹھ افراد لقمہ اجل بن گئے ۔
صدر آصف علی زرداری گزشتہ چار روز سے شہر میں موجود ہیں ۔انہوں نے امن کیلئے کمیٹی تشکیل دی ، ایم کیو ایم اور اے این پی سے مذاکرات کیے لیکن حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں ۔ ان کی شہر میں موجودگی کے دوران ایس پی ، دو ڈاکٹرز اور دو سیاسی کارکنان سمیت 19 افراد گولیوں اور پرتشدد واقعات کا نشانہ بن گئے ۔
یکم مئی سے 30مئی تک ایک سو ایک افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں حکمراں جماعت پیپلزپارٹی ، اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم اور اے این پی ، سنی تحریک اور قوم پرست جماعتوں کے کارکنان کے علاوہ عالم دین ، ڈاکٹرز اور پولیس اہلکار بھی شامل ہیں ۔
بائیس مئی کا دن سب سے زیادہ خونریز ثابت ہوا جب شہر میں قوم پرست جماعتوں کی ریلی پر فائرنگ، اس کے بعد جلاؤ گھیراؤ اور پرتشدد واقعات میں سترہ افراد ہلاک ، بائیس گاڑیاں ، آٹھ دکانیں اور تین گھر نذر آتش کر دیئے گئے ۔
مبصرین کے مطابق کراچی میں فرقہ ، لسانیت ، سیاسی ، مذہبی اور دیگر وجوہات پر قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے ۔ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جب مختلف تنظیمیں شہر کے کسی نہ کسی علاقے میں زبردستی ہڑتال نہ کروا رہی ہوں ۔ موجودہ صورتحال نہ صرف حکومتی اتحاد کیلئے بڑا چیلنج ہے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کیلئے بھی سوالیہ نشان ہے ۔