الیکشن کمیشن کی جانب سے کراچی میں ووٹر لسٹوں کی تصدیق کے عمل میں مبینہ طور پر فوج کو شامل نہ کرنے پر مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی، تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان، سنی تحریک، عوامی تحریک، اہلسنت والجماعت، پی ڈی پی اور عوامی مسلم لیگ سخت ناراض ہیں۔
کراچی —
کراچی میں ووٹر لسٹوں کے تصدیقی عمل اور اراکین کے تقرر کے معاملات نے چالیس دن بعد ملکی مستقبل سے متعلق اہم فیصلے کرنے والے ادارے پر کئی سوالیہ نشانات لگا دیئے ہیں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے کراچی میں ووٹر لسٹوں کی تصدیق کے عمل میں مبینہ طور پر فوج کو شامل نہ کرنے پر مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی، تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان، سنی تحریک، عوامی تحریک، اہلسنت والجماعت، پی ڈی پی اور عوامی مسلم لیگ سخت ناراض ہیں۔
مذکورہ جماعتوں نے پہلے کئی روز تک کراچی میں صوبائی الیکشن کے باہر دھرنا دیاجبکہ ایک روز پہلے مسلم لیگ ن کی قیادت میں کئی جماعتوں نے اسلام آباد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے باہر بھی احتجاج ریکارڈ کروایا۔ اپوزیشن کے احتجاج کے بعد الیکشن کمیشن نے سات فروری کو اجلاس طلب کر لیا ہے۔
مبصرین اس معاملے کو الیکشن کمیشن کیلئے انتہائی گھمبیر قرار دے رہے ہیں کیونکہ الیکشن کمیشن کے سربراہ فخر الدین جی ابراہیم کئی بار یہ واضح کر چکے ہیں کہ کراچی میں ووٹر لسٹوں کی تصدیق کیلئے فوج کی ضرورت نہیں۔ یاد رہے کہ کراچی میں ووٹرز فہرستوں کی تصدیق کا عمل گیارہ فروری تک جاری رہے گا۔
دوسرا بڑا چیلنج
الیکشن کمیشن کیلئے دوسرا بڑا چیلنج اس کی تشکیل ِنو کا مطالبہ ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری جو پہلے ہی اس حوالے سے لانگ مارچ کر چکے ہیں، بدھ کو انہوں نے سپریم کورٹ جانے کا اعلان کر دیا ہے۔ نجی چینل اے آر وائی نیوز سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے اراکین کی تقرریوں کے وقت صرف مک مکا کیا گیا، پانچ اراکین میں سے چار صوبائی حکومتوں نے منتخب کیے ہیں لہذا ایسی صورتحال میں شفاف الیکشن کمیشن کی از سرنو تشکیل ضروری ہے۔
دوسری جانب منگل کو تحریک انصاف کا بھی اسلام آباد میں اہم اجلاس ہوا۔ اس موقع پر ڈاکٹر طاہر القادری کی تائید کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ الیکشن کمیشن کے صوبائی حکومتوں کی جانب سے مقرر کیے گئے چاراراکین تبدیل کر کے ان کی جگہ نئے اور غیر جانبدار اراکین کی تعیناتی کی جائے۔
واضح رہے کہ موجودہ حکومت سولہ مارچ کو اپنی آئینی مدت پوری کر رہی ہے جس کے بعد نگراں سیٹ اپ آنا ہے جس میں تقریباً چالیس ہی دن باقی رہ گئے ہیں۔ بیسویں آئینی ترمیم کے مطابق اگر حکومت اور اپوزیشن وزیراعظم کے نام پر متفق نہ ہوسکے تو اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن کے سربراہ کو کرنا ہے۔
مبصرین مذکورہ دونوں مطالبات کو الیکشن کمیشن کیلئے بڑا امتحان قرار دے رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اگر سیاسی طاقتوں نے یہ معاملات افہام و تفہیم سے حل نہ کیے نہ صرف نگراں سیٹ اپ ایک بڑا سوالیہ نشان بن جائے گا بلکہ آئندہ انتخابات پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے
الیکشن کمیشن کی جانب سے کراچی میں ووٹر لسٹوں کی تصدیق کے عمل میں مبینہ طور پر فوج کو شامل نہ کرنے پر مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی، تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان، سنی تحریک، عوامی تحریک، اہلسنت والجماعت، پی ڈی پی اور عوامی مسلم لیگ سخت ناراض ہیں۔
مذکورہ جماعتوں نے پہلے کئی روز تک کراچی میں صوبائی الیکشن کے باہر دھرنا دیاجبکہ ایک روز پہلے مسلم لیگ ن کی قیادت میں کئی جماعتوں نے اسلام آباد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے باہر بھی احتجاج ریکارڈ کروایا۔ اپوزیشن کے احتجاج کے بعد الیکشن کمیشن نے سات فروری کو اجلاس طلب کر لیا ہے۔
مبصرین اس معاملے کو الیکشن کمیشن کیلئے انتہائی گھمبیر قرار دے رہے ہیں کیونکہ الیکشن کمیشن کے سربراہ فخر الدین جی ابراہیم کئی بار یہ واضح کر چکے ہیں کہ کراچی میں ووٹر لسٹوں کی تصدیق کیلئے فوج کی ضرورت نہیں۔ یاد رہے کہ کراچی میں ووٹرز فہرستوں کی تصدیق کا عمل گیارہ فروری تک جاری رہے گا۔
دوسرا بڑا چیلنج
الیکشن کمیشن کیلئے دوسرا بڑا چیلنج اس کی تشکیل ِنو کا مطالبہ ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری جو پہلے ہی اس حوالے سے لانگ مارچ کر چکے ہیں، بدھ کو انہوں نے سپریم کورٹ جانے کا اعلان کر دیا ہے۔ نجی چینل اے آر وائی نیوز سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے اراکین کی تقرریوں کے وقت صرف مک مکا کیا گیا، پانچ اراکین میں سے چار صوبائی حکومتوں نے منتخب کیے ہیں لہذا ایسی صورتحال میں شفاف الیکشن کمیشن کی از سرنو تشکیل ضروری ہے۔
دوسری جانب منگل کو تحریک انصاف کا بھی اسلام آباد میں اہم اجلاس ہوا۔ اس موقع پر ڈاکٹر طاہر القادری کی تائید کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ الیکشن کمیشن کے صوبائی حکومتوں کی جانب سے مقرر کیے گئے چاراراکین تبدیل کر کے ان کی جگہ نئے اور غیر جانبدار اراکین کی تعیناتی کی جائے۔
واضح رہے کہ موجودہ حکومت سولہ مارچ کو اپنی آئینی مدت پوری کر رہی ہے جس کے بعد نگراں سیٹ اپ آنا ہے جس میں تقریباً چالیس ہی دن باقی رہ گئے ہیں۔ بیسویں آئینی ترمیم کے مطابق اگر حکومت اور اپوزیشن وزیراعظم کے نام پر متفق نہ ہوسکے تو اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن کے سربراہ کو کرنا ہے۔
مبصرین مذکورہ دونوں مطالبات کو الیکشن کمیشن کیلئے بڑا امتحان قرار دے رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اگر سیاسی طاقتوں نے یہ معاملات افہام و تفہیم سے حل نہ کیے نہ صرف نگراں سیٹ اپ ایک بڑا سوالیہ نشان بن جائے گا بلکہ آئندہ انتخابات پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے