امریکہ کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ سابق صدر حامد کرزئی اور سابق چیف ایگزیکٹو اور قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے رابطہ کرتے ہیں، غیر ملکی وفود اگر افغانستان جاتے ہیں تو ان دونوں راہنماؤں سے ان کی ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ یہ دونوں راہنما افغانستان کے موجودہ سیاسی حالات میں کتنے اہم ہیں؟
یہ دونوں شخصیات ایسے میں افغانستان کے اندر موجود ہیں جب سابق صدر اشرف غنی ان کے نائب صدر امراللہ صالح، ان کے قومی سلامتی کے مشیر محب اللہ محب سمیت انتظامیہ کے اہم عہدیدار ملک سے باہر جا چکے ہیں۔ اسی طرح افغانستان کے ہرات صوبے سے اہم ملیشیا راہنما اسماعیل خان ہوں یا شمالی پنجشیر سے تعلق رکھنے والے جلا وطن راہنما احمد مسعود ہوں، وہ بھی طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد ملک چھوڑ چکے ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ جائزہ لیا جا رہا ہے کہ حامد کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ افغانستان کے موجودہ سیاسی حالات میں کتنی اہمیت رکھتے ہیں۔ افغانستان کے مستقبل کے امکانات میں وہ کس حد تک متعلقہ ( Relevant ) ہیں۔ یہ دونوں شخصیات بین الاقوامی کمیونٹی اور طالبان کے لیے کیونکر اہم ہیں؟ اور یہ دونوں راہنما سیاسی سرگرمیوں میں کس حد تک آزاد ہیں؟
منگل کی شام امریکہ کےخصوصی نمائندہ برائے افغانستان تھامس ویسٹ نے اپنی ٹویٹ میں بتایا کہ انہوں نے سابق افغان صدر حامد کرزئی اور پچھلی انتظامیہ میں قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے الگ الگ ٹیلی فون پر گفتگو کی اور وسیع تر معاملات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
’’مجھے سابق صدر کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ کے ساتھ الگ الگ بات کرنے کا موقع ملا ہے۔ افغانستان کے عوام، انسانی بحران اور معاشی صورت حال، خواتین، لڑکیوں اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے بین الاقوامی برادری کے کردار اور مدد سے متعلق ان کی گراں قدر آرا پر شکر گزار ہوں‘‘۔
ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے بھی اپنی ٹویٹ میں امریکی نمائندہ خصوصی کے ساتھ اپنی گفتگو کے پس منظر میں اس امید کا اظہار کیا ہے کہ تمام فریق افغانستان کے اندر بڑی آفت سے بچنے کے لیے اقدامات کریں گے۔ اسی طرح سابق صدر حامد کرزئی نے بھی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ تھامس ویسٹ اور انہوں نے افغانستان کے اندر انسانی بحران اور خواتین کی تعلیم پر بات کی ہے۔
حامد کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ آج کے افغانستان میں کتنے اہم ہیں؟
تجزیہ کاروں کی رائے اس بارے میں منقسم ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ دونوں شخصیات فوری طور پر کسی منظر نامے میں جگہ بناتی نظر نہیں آتیں، تاہم مستقبل بعید میں ان کا کردار ہو سکتا ہے۔ جب کہ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دونوں شخصیات کا سیاسی پس منظر، ان کے لیے عوام میں حمایت کا موجود ہونا اور طالبان کے قبضے سے پیدا ہونے والےخطرات کے باوجود ملک چھوڑ کر نہ جانا ان کو بہت ’ریلیونٹ‘ بناتا ہے اور وہ ملک کے لیے بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
کامران بخاری واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک نیو لائنز کے ڈائریکٹر اینالیٹیکل ہیں۔ افغانستان کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہتے ہیں کہ سابق صدر حامد کرزئی اور سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اہم راہنما ہیں، لیکن مستقبل قریب میں ان کا کوئی کردار میں نظر نہیں آتا۔
’’ فی الحال میں نہیں سمجھتا کہ ان دونوں راہنماؤں کے پاس کوئی بڑی طاقت ہے۔ ان کے لیے جگہ تب بنے گی جب طالبان کے لیے جگہ تنگ پڑے گی۔ ان پر دباؤ بڑھے گا کہ وہ ایک جامع حکومت بنائیں، جس میں تمام دھڑوں کی نمائندگی ہو۔ تو اس وقت ان دو بڑے پلیئرز کی ضرورت پڑے گی۔ انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ شاید آج یہ کام نہ آئیں لیکن مستقبل میں کام آ سکتے ہیں‘‘۔
SEE ALSO: امریکہ کا افغان عوام کے لیے 30 کروڑ 80 لاکھ ڈالر امداد کا اعلانحنیف رحمٰن افغانستان کے حالات سے گہری واقفیت رکھنے والے سینئر صحافی ہیں۔ وہ اس بارے میں کہتے ہیں:
’’ حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ کی ذاتی حیثیت بھی ہے اور سیاسی حیثیت بھی۔ پشتو بولنے والے افغان عوام اور دھڑوں کے لیے حامد کرزئی ایک بڑا نام ہیں، بشمول افغان طالبان کے۔ اسی طرح ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو شمالی اتحاد کے اہم راہنما اور احمد شاہ مسعود کے دست راست ہونے کی حیثیت سے شمال میں ایک بڑا مقام حاصل ہے، تو پشتون کمیونٹی میں بھی ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انہیں افغانستان کی مختلف قومیتوں کے ساتھ بات چیت کا تجربہ رہا ہے جو ان کو ممتاز کرتا ہے۔ اس وقت افغانستان میں اور کسی راہنما کی ایسی حیثیت نہیں جو ان دو راہنماؤں کی ہے۔‘‘
طاہرخان سینئر صحافی ہیں۔ افغانستان کے حالات پر لکھتے ہیں اور ٹی وی پروگراموں میں بطور تجزیہ کار اور میزبان شرکت کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ سابق صدر حامد کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی اہمیت سے انکار نہیں، لیکن فی الوقت ان کا کردار تو کیا ان کو حاصل آزادی بھی ان کے بقول بہت محدود ہے۔
’’ دونوں شخصیات ان لوگوں سے زیادہ ریلیونٹ ہیں جو ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ لیکن جہاں تک ان کے موجودہ حالات میں کسی کردار کی بات ہے تو وہ فوری طور پر نظر نہیں آتا۔ حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ دونوں ملک سے باہر بین الافغان ڈائیلاگ کی بات کرتے ہیں، لیکن طالبان اس کو مسترد کر چکے ہیں‘‘۔
Your browser doesn’t support HTML5
کیا حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ سیاسی سرگرمیوں میں آزاد ہیں؟
طاہر خان ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے قریبی ذرائع سے اپنی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے دعوی کرتے ہیں کہ وہ ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں۔ لیکن طالبان انہیں جانے کی اجازت نہیں دے رہے۔
’’ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے جینیوا میں ایک کانفرنس میں شرکت کی خواہش ظاہر کی، ان کو اجازت نہیں ملی، انہوں نے اپنے خاندان سے، جو بھارت میں مقیم ہے، ملنے کے لیے جانا چاہا مگر ان کو نہیں جانے دیا گیا‘‘۔
طاہر خان کے بقول حامد کرزئی بھی ملک سے باہر مذاکرات کے حامی ہیں اور ملک سے جانا چاہتے ہیں لیکن طالبان انہیں ملک کے اندر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے الفاظ میں وہ کافی حد تک قیدی یا نظر بند ہیں، لیکن طالبان ظاہر کرتے ہیں کہ وہ قیدی نہیں ہیں اور غیر ملکی وفود سے ملنے جلنے میں آزاد ہیں۔ طالبان نہیں چاہتے کہ یہ دونوں راہنما باہر جائیں اور ان کے لیے مشکلات پیدا ہوں‘‘۔
کامران بخاری کی رائے اس بارے میں مختلف ہے
‘’ اگر عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی نے ملک سے نکلنا ہوتا تو ان کے پاس یہ موقع موجود تھا۔ انہوں نے خطرات مول لیے لیکن ملک کے اندر رہنے کو ترجیح دی۔ وہ غیر ملکی میڈیا سے بھی بات کرتے ہیں، وہ ٹوئیٹس بھی کرتے ہیں۔ اس حد تک نہیں لگتا کہ انہیں آزادی حاصل نہ ہو، البتہ یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ طالبان نے انہیں ایک محدود آزادی دے رکھی ہو اور انہیں سیکیورٹی کے نام پر گھر پر محدود کر رکھا ہو۔ پابندیاں ضرور ہوں گی لیکن یہ پابندیاں بلیک اینڈ وائٹ میں نہیں ہیں۔ ‘‘
SEE ALSO: ایران میں افغان متحارب دھڑوں کی ملاقات، متقی اور احمد مسعود کی شرکتحنیف رحمٰن کہتے ہیں کہ طالبان کے کنٹرول کے بعد حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ کو سیاسی سرگرمیوں کی وہ آزادی تو حاصل نہیں ہو گی جو اس سے پہلے تھی لیکن اگر ان کا موازنہ باقی وار لارڈز اور طالبان مخالف راہنماؤں سے کریں تو یہ دونوں شخصیات میل ملاپ اور بات کرنے کی آزادی رکھتے ہیں۔
’’ وارلارڈز کے مقابلے میں انہیں زیادہ آزادی حاصل ہے۔ ان کی بات سنی جاتی ہے، ان کو اہمیت دی جاتی ہے۔ بین الاقوامی برادری سے تعلق رکھنے والے راہنما ان سے بات کرتے ہیں اور طالبان بھی کسی نہ کسی حوالے سے ان سے رابطہ کرتے ہیں اور بعض معاملات پر مشاورت بھی کرتے ہیں۔ موجودہ حالات میں ان دونوں شخصیات کا کردار نظر آتا ہے۔ آنے والے وقتوں میں طالبان اگر لچک دکھاتے ہیں تو ان کا کردار مزید بڑھے گا‘‘۔
حامد کرزئی طالبان کے لیے ’ ترپ کا پتا‘ بھی ہو سکتے ہیں؟
ڈاکٹر سحر خان، واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک کیٹو انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ وابستہ ہیں۔
’’ میں غلط ہو سکتی ہوں لیکن مجھے نہیں لگتا کہ حامد کرزئی کبھی طالبان کے ساتھ کسی حکومت کا حصہ بنیں گے۔ چاہے طالبان اپنی سوچ کے اعتبار سے تبدیل بھی ہو جائیں۔ کرزئی صاحب کی شخصیت کے خواص کو دیکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ وہ چاہیں گے کہ اگر اقتدار میں آنا ہے تو صرف وہی اقتدار میں ہوں۔‘‘
اگر حامد کرزئی طالبان کے ساتھ کسی بندوبست میں شریک ہوتے ہیں تو، ڈاکٹر سحر کے بقول، اس سے حامد کرزئی کی اپنی سیاسی ساکھ خراب ہو جائے گی۔ تاہم وہ سمجھتی ہیں کہ طالبان کے نقطہ نظر سے حامد کرزئی جیسی شخصیات اہمیت کی حامل اس لیے بھی ہے کہ کل کلاں بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعلقات میں انہیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
’’طالبان بھی نا سمجھ نہیں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ حامد کرزئی کے بین الاقوامی کمیونٹی کے ساتھ تعلقات ہیں۔ اور طالبان جب خود کو تسلیم کرائے جانے کا سوچتے ہیں تو وہ سوچتے ہوں گے کہ ایسے لوگوں کو کوئی نقصان یا تکلیف نہ دی جائے جو انٹرنیشنل کمیونٹی کے قریب ہیں، جیسے حامد کرزئی‘‘۔
کامران بخاری کے نزدیک حامد کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی افغانستان میں موجودگی کے طالبان کو فوائد بھی ہیں۔ اور وہ ان راہنماؤں کے علاوہ جلا وطن دیگر راہنماؤں کو بھی ملک میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
’’ طالبان کو ان راہنماؤں کے بہت سے فائدے بھی ہیں۔ وہ دنیا کو دکھا سکتے ہیں کہ ہم انتقام نہیں لے رہے۔ مخالفین کو گلے سے لگا کے بیٹھے ہیں۔ سابق صدر یہاں موجود ہے۔ سابق اہم عہدیدار موجود ہے۔ کرزئی پشتون ہیں۔ عبداللہ عبداللہ اپنے خاندانی پس منظر کے اعتبار سے آدھے پشتون اور آدھے پنجشیری ہیں۔ اگر طالبان اسماعیل خان اور احمد مسعود کو لے آتے ہیں (جیسا کہ ایران کے اندر گزشتہ ہفتے کے مذاکرات ظاہر کرتے ہیں) اور کسی ازبک کو بھی باہر سے لاتے ہیں تو دنیا کو دکھائیں گے کہ سب سٹیک ہولڈرز اور اپوزیشن ملک کے اندر ہے اور انہیں طالبان سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘‘
حنیف رحمان کے بقول طالبان ان دونوں شخصیات کے ذریعے اپنا تشخص بہتر بنا سکتے ہیں۔
’’ طالبان پر جو بین الاقوامی دباؤ ہے، اسے دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہی وہ دو راہنما ہیں جو ان کے لیے راستہ ہموار کر سکتے ہیں‘‘۔
کامران بخاری کہتے ہیں کہ حامد کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی سیاسی سوجھ بوجھ، اعلی عہدوں پر ذمہ داریوں کا تجربہ اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ راہ و رسم جیسے عوامل انہیں اچھا ’ اسٹٹیٹسمین‘ ظاہر کرتے ہیں، اگرچہ وہ افغانستان کو ایک پائیدار ریاست بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
تجزیہ کار سابق افغان صدر اور سابق چیف ایگزیکٹو کو سیاسی اعتبار سے بھی منجھے ہوئے راہنما قرار دیتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان، طالبان، اور امریکہ جیسے پلیئرز کے ساتھ تعلقات میں اونچ نیچ کے باوجود خود کو سب سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل بیٹھ کر بات کرنے کے اہل رکھا ہے۔