صدر کرزئی نے کہا کہ افغان گزشتہ 12 برسوں سے ایک ایسی جنگ میں اپنی جانیں دے رہے ہیں جو، ان کے بقول، "ہماری نہیں"۔
واشنگٹن —
افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ افغان جنگ ان کے ملک کے مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر نہیں لڑی گئی تھی۔
امریکی اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں صدر کرزئی نے امریکی حکومت پر "سخت برہمی" ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ 11 ستمبر 2001ء کے بعد افغانستان پر امریکی حملے سے شروع ہونے والی جنگ کا مقصد "امریکہ کی سکیورٹی اور مغربی مفادات کا تحفظ" کرنا تھا۔
صدر کرزئی نے کہا کہ افغان گزشتہ 12 برسوں سے ایک ایسی جنگ میں اپنی جانیں دے رہے ہیں جو، ان کے بقول، "ہماری نہیں"۔
خیال رہے کہ امریکہ کے ساتھ مجوزہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کے بعد سے صدر کرزئی مسلسل امریکی حکومت پر کڑی تنقید کرتے چلے آرہے ہیں۔
مجوزہ معاہدے کے تحت امریکہ افغانستان میں اپنے چند ہزار فوجی 2014ء کے بعد بھی رکھ سکے گا جو وہاں موجود غیر ملکی افواج کے انخلا کی حتمی ڈیڈلائن ہے۔
افغان پارلیمان اور قبائلی رہنماؤں کی جا نب سے مجوزہ معاہدے کی حمایت کے باوجود صدر کرزئی کا اصرار ہے کہ معاہدے پر دستخط اپریل میں ہونے والے انتخابات کے بعد نیا آنے والا صدر کرے گا۔
گزشتہ ہفتے امریکہ کے صدر براک اوباما نے اپنے افغان ہم منصب کو ٹیلی فون کرکے بتایا تھا کہ امریکہ ان کے فیصلے کا احترام کرتا ہے۔ ساتھ ہی صدر اوباما نے 'پینٹاگون' کو افغانستان سے تمام امریکی فوجی واپس بلانے کی تیاری کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان گزشتہ سال جون کے بعد یہ پہلا باقاعدہ رابطہ تھا جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں آنے والی سرد مہری کا اظہار ہوتا ہے۔
اتوار کو شائع ہونے والے اپنے انٹرویو میں صدر کرزئی کا کہنا تھا کہ اب امریکہ کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ ان کے جانشین کے ساتھ ہی مجوزہ معاہدے پر بات چیت کرے۔
افغان صدر نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ طالبان شدت پسندوں کے ساتھ جاری امن مذاکرات میں تیزی لائے اور افغان عوام کے گھروں پر چھاپوں اور بمباری کا سلسلہ بند کرے۔
صدر کرزئی نے کہا کہ وہ دورانِ جنگ بشمول امریکی کاروائیوں میں ہونے والے افغان شہریوں کی ہلاکت پر خاصے مضطر ب ہیں۔ افغان صدر کا کہنا تھا کہ امریکہ نے اپنی تمام توجہ پاکستان میں موجود طالبان کی پناہ گاہوں کے بجائے افغان دیہات پر مرکوز کر رکھی ہے جسے انہوں نے دھوکہ دہی سے تعبیر کیا۔
'واشنگٹن پوسٹ' کے مطابق جب صدر کرزئی انٹرویو لینے والے صحافیوں کو رخصت کر رہے تھے تو انہوں نے کہا کہ "امریکی عوام کو میری نیک تمنائیں اور شکریہ جب کہ امریکی حکومت تک میرا غصہ، بلکہ شدید غصہ پہنچائیے گا"۔
امریکی اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں صدر کرزئی نے امریکی حکومت پر "سخت برہمی" ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ 11 ستمبر 2001ء کے بعد افغانستان پر امریکی حملے سے شروع ہونے والی جنگ کا مقصد "امریکہ کی سکیورٹی اور مغربی مفادات کا تحفظ" کرنا تھا۔
صدر کرزئی نے کہا کہ افغان گزشتہ 12 برسوں سے ایک ایسی جنگ میں اپنی جانیں دے رہے ہیں جو، ان کے بقول، "ہماری نہیں"۔
خیال رہے کہ امریکہ کے ساتھ مجوزہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کے بعد سے صدر کرزئی مسلسل امریکی حکومت پر کڑی تنقید کرتے چلے آرہے ہیں۔
مجوزہ معاہدے کے تحت امریکہ افغانستان میں اپنے چند ہزار فوجی 2014ء کے بعد بھی رکھ سکے گا جو وہاں موجود غیر ملکی افواج کے انخلا کی حتمی ڈیڈلائن ہے۔
افغان پارلیمان اور قبائلی رہنماؤں کی جا نب سے مجوزہ معاہدے کی حمایت کے باوجود صدر کرزئی کا اصرار ہے کہ معاہدے پر دستخط اپریل میں ہونے والے انتخابات کے بعد نیا آنے والا صدر کرے گا۔
گزشتہ ہفتے امریکہ کے صدر براک اوباما نے اپنے افغان ہم منصب کو ٹیلی فون کرکے بتایا تھا کہ امریکہ ان کے فیصلے کا احترام کرتا ہے۔ ساتھ ہی صدر اوباما نے 'پینٹاگون' کو افغانستان سے تمام امریکی فوجی واپس بلانے کی تیاری کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان گزشتہ سال جون کے بعد یہ پہلا باقاعدہ رابطہ تھا جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں آنے والی سرد مہری کا اظہار ہوتا ہے۔
اتوار کو شائع ہونے والے اپنے انٹرویو میں صدر کرزئی کا کہنا تھا کہ اب امریکہ کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ ان کے جانشین کے ساتھ ہی مجوزہ معاہدے پر بات چیت کرے۔
افغان صدر نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ طالبان شدت پسندوں کے ساتھ جاری امن مذاکرات میں تیزی لائے اور افغان عوام کے گھروں پر چھاپوں اور بمباری کا سلسلہ بند کرے۔
صدر کرزئی نے کہا کہ وہ دورانِ جنگ بشمول امریکی کاروائیوں میں ہونے والے افغان شہریوں کی ہلاکت پر خاصے مضطر ب ہیں۔ افغان صدر کا کہنا تھا کہ امریکہ نے اپنی تمام توجہ پاکستان میں موجود طالبان کی پناہ گاہوں کے بجائے افغان دیہات پر مرکوز کر رکھی ہے جسے انہوں نے دھوکہ دہی سے تعبیر کیا۔
'واشنگٹن پوسٹ' کے مطابق جب صدر کرزئی انٹرویو لینے والے صحافیوں کو رخصت کر رہے تھے تو انہوں نے کہا کہ "امریکی عوام کو میری نیک تمنائیں اور شکریہ جب کہ امریکی حکومت تک میرا غصہ، بلکہ شدید غصہ پہنچائیے گا"۔