صدر کرزئی نے یہ واضح کیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ سیکورٹی پیکٹ پر دستخط کرنے کے لیے اپنی شرائط سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
واشنگٹن —
افغان صدر حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے تو ’ امریکہ ایسا آج ہی کر سکتا ہے، خدا امریکہ کے ساتھ ہو‘۔ دوسری جانب صدر کرزئی نے یہ واضح کیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ سیکورٹی پیکٹ پر دستخط کرنے کے لیے اپنی شرائط سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
امریکہ اور افغانستان کے درمیان سیکورٹی معاہدے کی رُو سے 2014ء کے بعد بھی افغانستان میں چند امریکی فوجی دستے تعینات رہیں گے۔
نیٹو افواج 2014ء کے آخر تک افغانستان سے نکل جائیں گے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اس سے پہلے پہلے امریکہ اور افغانستان کے درمیان سیکورٹی معاہدہ طے پا جائے جس کی رُو سے افغانستان میں نیٹو افواج کے انخلاء کے باوجود وہاں پر امریکی افواج کی موجودگی کو یقینی بنایا جا سکے تاکہ افغان افواج کو دہشت گردی سے نمٹنے کی تربیت دی جا سکے اور انہیں دہشت گردوں سے نمٹنے میں مدد دی جائے۔
اس معاہدے کو افغانستان کے لویا جرگہ نے گزشتہ سال منظور کرتے ہوئے صدر کرزئی پر دستخط کرنے کو کہا تھا لیکن مسٹر کرزئی اس میں پس و پیش سے کام لیتے رہے ہیں۔
گزشتہ سال غیر ملکی افواج نے افغانستان میں سلامتی کی ذمہ داریاں مقامی سکیورٹی فورسز کے سپرد کر دی تھیں لیکن مبصرین افغان سکیورٹی فورسز کی استعداد کار کو سامنے رکھتے ہوئے یہ خدشہ ظاہر کر چکے ہیں کہ بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد جنگ سے تباہ حال اس ملک میں سلامتی کی صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔
طالبان بھی ملک کے مختلف حصوں میں اپنے اثرو رسوخ کا دعویٰ کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد وہ ملک پر پھر قابض ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ہفتہ کو کابل میں صحافیوں سے گفتگو میں افغان صدر کرزئی کا کہنا تھا کہ معاہدے کی شرائط قبول کرنے سے قبل وہ چاہتے ہیں کہ واشنگٹن امن بات چیت کی بحالی میں مدد کرے۔
’اگر امریکہ دو طرفہ سکیورٹی معاہدے پر ہماری شرائط ماننے کو تیار نہیں تو وہ (امریکی افواج) کسی بھی وقت یہاں سے جاسکتے ہیں اور افغانستان غیر ملکیوں کے بغیر بھی چلتا رہے گا‘۔
امریکہ اور افغانستان کے درمیان سیکورٹی معاہدے کی رُو سے 2014ء کے بعد بھی افغانستان میں چند امریکی فوجی دستے تعینات رہیں گے۔
نیٹو افواج 2014ء کے آخر تک افغانستان سے نکل جائیں گے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اس سے پہلے پہلے امریکہ اور افغانستان کے درمیان سیکورٹی معاہدہ طے پا جائے جس کی رُو سے افغانستان میں نیٹو افواج کے انخلاء کے باوجود وہاں پر امریکی افواج کی موجودگی کو یقینی بنایا جا سکے تاکہ افغان افواج کو دہشت گردی سے نمٹنے کی تربیت دی جا سکے اور انہیں دہشت گردوں سے نمٹنے میں مدد دی جائے۔
اس معاہدے کو افغانستان کے لویا جرگہ نے گزشتہ سال منظور کرتے ہوئے صدر کرزئی پر دستخط کرنے کو کہا تھا لیکن مسٹر کرزئی اس میں پس و پیش سے کام لیتے رہے ہیں۔
گزشتہ سال غیر ملکی افواج نے افغانستان میں سلامتی کی ذمہ داریاں مقامی سکیورٹی فورسز کے سپرد کر دی تھیں لیکن مبصرین افغان سکیورٹی فورسز کی استعداد کار کو سامنے رکھتے ہوئے یہ خدشہ ظاہر کر چکے ہیں کہ بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد جنگ سے تباہ حال اس ملک میں سلامتی کی صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔
طالبان بھی ملک کے مختلف حصوں میں اپنے اثرو رسوخ کا دعویٰ کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد وہ ملک پر پھر قابض ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ہفتہ کو کابل میں صحافیوں سے گفتگو میں افغان صدر کرزئی کا کہنا تھا کہ معاہدے کی شرائط قبول کرنے سے قبل وہ چاہتے ہیں کہ واشنگٹن امن بات چیت کی بحالی میں مدد کرے۔
’اگر امریکہ دو طرفہ سکیورٹی معاہدے پر ہماری شرائط ماننے کو تیار نہیں تو وہ (امریکی افواج) کسی بھی وقت یہاں سے جاسکتے ہیں اور افغانستان غیر ملکیوں کے بغیر بھی چلتا رہے گا‘۔