بھارتی کشمیر کی عدالت نے پولیس سے صحافی فہد احمد شاہ کی گرفتاری اور اُن پر عائد کیے گئے الزامات کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔
مذکورہ صحافی کو جمعے کو پلوامہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ فہد احمد شاہ بھارتی کشمیر کے سرکردہ صحافی اور نیوز ویب سائٹ 'کشمیر والا' کے مدیر ہیں۔
عدالت کی جانب سے جواب طلبی پر پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ پیر کو فہد احمد شاہ پر عائد کی گئی عبوری چارج شیٹ عدالت میں جمع کرا دے گی۔
فہد شاہ کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کے موکل پر لگائے گیے الزامات کے بارے میں معلومات فراہم کیے جانے کے بعد وہ عدالت سے ضمانت کی درخواست کریں گے۔
جنوبی ضلع پلوامہ کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے 33 سالہ فہد شاہ کو ہفتے کو 10 روز کے لیے پولیس ریمانڈ میں بھیج دیا تھا۔
پولیس نے 30 جنوری کو پلوامہ میں مشتبہ عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپ کی کوریج کے سلسلے میں فہد شاہ کو طلب کیا تھا۔ وہ جمعے کو اپنا بیان قلمبند کرانے مقامی پولیس اسٹیشن گئے جہاں اُنہیں حراست میں لے لیا گیا۔
پلوامہ واقعے کی کوریج پر سیکیورٹی اداروں کو اعتراض کیوں تھا؟
پولیس کے مطابق پلوامہ کے نائیرا گاؤں میں ہونے والی اس جھڑپ میں کالعدم جیشِ محمد کے چار عسکریت پسند ہلاک ہوئے تھے جن میں اُس گھر کے مالک کا بیٹا بھی شامل تھا جسے عسکریت پسند مبینہ طور پر کمین گاہ کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔
پولیس نےکہا تھا کہ مالکِ مکان کے بیٹے عنایت احمد کو جو خود بھی ایک عسسکریت پسند تھا ہتھیار ڈال کر خود کو قانون کے حوالے کرنے کی پیشکش کی گئی تھی جسے ٹھکرایا گیا اور چاروں عسکریت پسندوں نے سیکیورٹی فورسز پر فائرنگ کر دی جس کے بعد جھڑپ کا آغاز ہوا۔
Your browser doesn’t support HTML5
جھڑپ کے دوران عنایت احمد ہلاک ہو گیا تھا۔ اس کے اہلِ خانہ کا کہنا تھا کہ عنایت عسکریت پسند نہیں تھا۔
اسی سلسلے میں پلوامہ پولیس نے فہد شاہ اور ایک اور سرکردہ صحافی ماجد حیدری اور دو مقامی رپورٹرز کو متعلقہ تھانے میں طلب کیا تھا۔ ان پر واقعے کی غلط رپورٹنگ کرنے کا الزام لگایا گیا۔
کشمیری صحافیوں کے لیے اِدھر کنواں، اُدھر کھائی
ماجد حیدری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ 31 جنوری کو تھانے میں پیش ہوئے تھے جہاں انہوں نے تفتیشی افسر کو بتایا " کشمیرایک کنفلکٹ زون (علاقہ جنگ) ہے اور اس کے صحافی اِدھر کنواں اور اُدھر کھائی والی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ لہٰذا ان کے لیے کسی بھی واقعے کے مختلف پہلو بیان کرنا ناگزیر ہے بھلے ہی یہ کسی پر ناگوار گزرے۔
فہد شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ نیوز ویب سائٹ 'کشمیر والا' نے پلوامہ میں پیش آئی جھڑپ اور اس سلسلے میں پولیس اور عنایت احمد کے گھر والوں کے بیانات کو یکسان کوریج دی تھی۔
اسی بارے میں
سرینگر: کشمیر پریس کلب کی الاٹمنٹ منسوخ، معاملہ کیا ہے؟کشمیر: برف کے گولے اور پٹاخے پھینک کر منایا جانے والا انوکھا عرسفہد شاہ فیک نیوز پھیلانے کے عادی تھے: پولیس
لیکن انسپکٹر جنرل آ ف پولیس وجے کمار کا کہنا ہے کہ فہد شاہ اپنے نیوز پورٹل اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے بھارت مخالف مہم چلانے کے عادی بن گئے تھے۔
اُن کے بقول اُنہیں بار بار متنبہ کرنے کے باوجود وہ اپنی اس روش سےباز نہیں آئے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے خلاف سرینگر کے ایک تھانے اورجنوبی ضلع شوپیاں کے امام صاحب پولیس اسٹیشنز میں بھی قانون کی مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج ہیں۔
'کشمیر والا ' میں چھپی ایک رپورٹ کے مطابق فہد شاہ پر ملک (بھارت) سے غداری کرنے اور انسداد ِ دہشت گردی قوانین کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اگر ان پر یہ الزامات ثابت ہوتے ہیں تو انہیں عمر قید تک کی سزا ہوسکتی ہے۔
'کشمیر والا' سے وابستہ دوسرے صحافی کی گرفتاری
اس سے پہلے پولیس نے 'کشمیر والا ' سے وابستہ ایک رپورٹر سجاد گُل کو گرفتار کیا تھا۔ پولیس نےشمالی ضلع بانڈی پور سے تعلق رکھنے والے سجاد گُل کے خلاف قانون کی مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی ۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک ایسی ویڈیو ڈالی تھی جس میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ کے دوراں ہلاک ہونے والے ایک عسسکریت پسند کے اہلِ خانہ اور بعض دوسرے افراد کو احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔
پولیس نے کہا تھا کہ سجاد گُل کی اس حرکت کا مقصد نہ صرف حکومت اور ریاست کے خلاف لوگوں میں نفرت اور ناراضگی کوہوا دینا تھا بلکہ یہ لوگوں کو تشدد پر اکسانے کی ایک دانستہ کوشش بھی تھی۔
ایک مقامی عدالت نے سجاد گُل کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کردیا تو پولیس نے انہیں رہا کرنے سے انکار کر دیا اور ان کے اہلِ خانہ اور وکیل کو مطلع کر دیا کہ ان کے خلاف اقدامِ قتل کے الزام میں ایک اور ایف آئی آر متعلقہ تھانے میں درج کی گئی ہے۔
بعد ازاں سجاد گل کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند کر دیا گیا۔
صحافتی تنظیموں کی مذمت
نیویارک میں قائم صحافیوں کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) سمیت کئی صحافتی تنظیموں نے فہد شاہ اور سجاد گُل کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے اُن کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
سی پی جے نے کہا ہے "حکام کو چاہیے کہ وہ فہد شاہ کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کر دے۔ان کے کام کے بارے میں کی جانے والی تحقیقات کو واپس لے اور صحافیوں کی گرفتاری کا سلسلہ روک دے۔
ایڈیٹرز گِلڈ آف انڈیا نے بھی فہد شاہ کی گرفتاری پر شدید ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اُنہیں ماضی میں بھی ہراساں کیا گیا اور یہ صحافیوں کو پوچھ گچھ کے لیے بلانے کے رجحان کا حصہ ہے۔
خیال رہے کہ جموں و کشمیر میں 1978 سے نافذ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کسی بھی شخص کو اُس پر مقدمہ چلائے بغیر تین ماہ سے دو سال تک قید کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس طرح کی نظر بندی کو ایک عام عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ نیز ایک سرکاری کمیٹی اس طرح کے معاملات کا وقفے وقفے سے جائزہ لیتی ہے۔
بعض سیاسی جماعتوں اور قائدین نے بھی فہد شاہ کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔ سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے ایک ٹوئٹ کرکے حکومت پرالزام لگایا کہ وہ جموں و کشمیر کے عوام سے حقائق پوشیدہ رکھنا چاہتی ہے۔